اسرائیل کا لبنان پر حملہ حسن نصراللہ اوریحیٰ سنوار کی شہادت اوراس کے بعد

اکتوبر 2024

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

بالآخروہائٹ ہاؤس کے’’ شیاطین ِبزرگ‘‘ سے ہری جھنڈی ملنے کے بعداسرائیل نے لبنان پر فضائی اوربری حملہ کردیا۔جس میں 28ستمبرکی رات کوضاحیۃبیروت میں امریکہ کے فراہم کردہ 80بنکربسٹربموں سے چھہ عمارتوںپر مشتمل ایک بڑے کمپاؤنڈکوپوری طرح زمین دوز کردیا گیا اوراس میں حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ اوراس کی ٹاپ قیادت شہیدکردی گئی ۔یہ کئی افرادتھے جن میں بعض ایرانی کمانڈربھی تھے جووہاں حملے کے وقت میٹنگ کررہے تھے۔جنوبی لبنان اوردارالحکومت بیروت کے مضافات تک کے رہائشی علاقوںمیں اسرائیل نے ایک ہی رات میں 1300سے زائدہوائی حملے کیے۔جن میں ایک ہی دن میں چھ سوسے زیادہ شہری مارے گئے ۔ انفرا اسٹر کچرتباہ ہوا ،لاکھوں لوگوں کونقل مکانی کرنی  پڑی اور زخمی ہزاروں کی تعدادمیں ہیں۔تب سے اسرائیل کے حملے مسلسل جاری ہیں اوراب اس نے زمینی حملے بھی شروع کردیے ہیں ،جن کا حزب اللہ کے مجاہدبھرپورجواب دے رہے ہیں۔بظاہراسرائیل یہ دعوا کرتاہے کہ اُس نے صرف حزب اللہ کے ٹھکانوںکونشانہ بنایاہے۔مگرامریکہ اوراسرائیل دونوںکا طریقہ ٔواردات جنگ میں زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کرنے اورانفرااسٹرکچرکی زیادہ سے زیادہ تباہی پر مبنی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح دشمن جلدی گھٹنے ٹیک دے گا۔

اسرائیل کا مانناہے کہ اس ہتھکنڈےسے لبنان کے عوام خودحزب اللہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، مگرایساہوتادکھائی نہیں دیتا۔یہی اندازہ اس کا غزہ کے بارے میں بھی تھالیکن سال بھرسے زیادہ شدیداورناقابل برداشت اذیتوں سے گذرنے کے باوجودغزہ کے عوام نے اس کوغلط ثابت کر دکھایا ہے ۔

لبنان پر اپنے حملوںکا آغازاسرائیل نے پیجراورواکی ٹاکی دھماکوں سے کیا،جس کی پلاننگ ظاہرہے کہ بہت پہلے سے کی گئی ہوگی اوراس میں امریکی ا نٹلینجس  اورتائیوان وغیرہ کی کمپنیوں کے ملوث ہونے کا بڑاامکان ہے۔اِن پیجردھماکوںمیں حزب اللہ کے بہت سے کمانڈر و  زوکارکنان بھی مارے گئے اورعوام بھی اورہزاروںلوگ زخمی بھی ہوئے ۔اورسب سے بڑی بات یہ کہ حزب اللہ کا کمیونیکیشن سسٹم تباہ کرکے اُسے زبردست شاک لگادیاگیا۔اِس صدمے سے ابھرنے سے پہلے ہی اسرائیل اپنی مہیب فضائی قوت کے ساتھ لبنان پر چڑھ دوڑا۔

ابتدائی دنوں سے  ہی حزب اللہ نے جوجوابی اسٹریٹیجی اپنائی تھی وہ کامیاب رہی یعنی دشمن کے اقتصادی ،انٹیلیجنس   ٹھکانوں،اسلحہ خانوں اور فیکٹریوں کو نشانہ بنانا۔اگرآئرن ڈوم کی زدسے بچ کراُس کے تھوڑے سے بھی میزائل اورراکٹ نشانہ پرپہنچ جاتے ہیں تواس سے اسرائیل کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاجاسکتاہے۔اس کے علاوہ غزہ ایک ساحلی اورسپاٹ ایریاہے کھلے آسمان کے نیچے ،جبکہ لبنان پہاڑوں سے گھراملک ہے ۔پہاڑی محل وقوع سے بھی حزب اللہ فائدہ اٹھاسکتاہے۔شایدانہیں خطرات کومحسوس کرتے ہوئے اسرائیل نے حزب اللہ کی پوری قیادت کوختم کرنے کی پلاننگ کی تاکہ اُس کوپوری طرح مفلوج بنایاجاسکے۔چنانچہ اسرائیل حزب اللہ کوسنبھنے  کا کوئی موقع نہیں دے رہاتھا بلکہ تابڑتوڑفضائی بمباری کرکے اس نے حزب کے مزیدکئی قائدین کوہلاک کردیا۔ابتداء میں حزب اللہ کوگہراشاک لگامگررفتہ رفتہ اب اس نے خودکوسنبھال لیا اوراسرائیل پرجوابی حملے شروع کردیے ۔

27،26ستمبر2024ء کومنعقدہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امریکی صدرنے پھروہی اپناگھساپٹاموقف دہرایاکہ اسرائیل کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔حماس کا سات اکتوبرکا حملہ دہشت گردی تھاوغیرہ ۔انہوں نے اسرائیل اورحزب اللہ کے مابین21دن کی عارضی جنگ بندی کا بھی اعلان کیاجسے مستردکرنے میں اسرائیل نے ذرابھی دیرنہیں لگائی۔ترکی صدررجب طیب اردغان اوراردن کے کنگ عبداللہ بن حسین نے بڑی زوردار تقریریںکیںاوراسرائیل اوراس کے مغربی اتحادیوں کے دوغلے پن کوصاف آشکاراکیا۔فلسطینی صدرمحمودعباس نے بھی شایدپہلی بارصاف وصریح الفاظ میں اسرائیل پرشدیدتنقیدکی اورکہاکہ یہ ہماری سرزمین ہے اورہم اس سے کہیں جانے والے نہیں ۔(لن نرحل لن نرحل )

جب اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہوکوخطاب کے لیے بلایاگیاتوتمام عرب نمائندے اوران کے ساتھ بہت سارے ممالک کے سفراء ہال سے واک آؤٹ کرگئے ۔آدھاہال خالی ہوگیا،اس نے ان خالی کرسیوں کوہی خطاب کیا۔سفارتی سطح پر یہ اسرائیل کی بہت بڑی ناکامی ہے ۔آج دنیاکی رائے عامہ مغربی اوراسرائیلی میڈیاکے تمام ترغلط پروپیگنڈے کے باوجوداسرائیل اورامریکہ کا بیانیہ بک نہیں پارہاہے ۔پہلے مغربی دنیاکی رائے عامہ جوپوری طرح اپنے میڈیاکے ذریعہ گمراہ کی گئی تھی، اب سرکاری نیریٹوکوقبول نہیں کررہی ہے۔نئی نسل ،سڑکوں ،کالجوں  اور یونیورسٹیوںمیں اس کے خلاف نکل رہی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ پوری طرح اسرائیل کی غلامی کررہاہے۔نتن یاہوجب چاہتاہے بائڈن اوراس کی انتظامیہ کودھتکاردیتاہے اوراُن کوبے عزت کردیتاہے۔اِن امریکی چودھریوں کواپنی ذلت کا بھی احساس نہیں ۔کئی مہینے پہلے صدر بائڈن نے اسرائیل اورحماس کے بیچ جنگ بندی کا ایک پروپوزل یہ کہہ کرپیش کیاتھاکہ یہ اسرائیل کا تجویز کردہ ہے۔حماس نے اس کوتسلیم کرلیا مگر اسرائیل نے فوراًمستردکردیا۔وہائٹ ہاؤس بجائے اس کے کہ اس پر ناراض ہوتا اُس کی لیپاپوتی میں لگ گیا۔ہویہ رہاہے کہ اسرائیل کوئی بھی بیان یاتجویز دیتاہے جونتن یاہوکی خطہ کوجنگ کی آگ میں جھونکنے کے پروگرام میں مدددے تو امریکی خارجہ سیکریٹری اُس کا چورن بیچنے کے لیے دوڑیں لگادیتا ہے ۔ یوروپ میں اسرائیلی جنگلی پن اوروحشیانہ اقدامات سے تشویش ہے مگریورپ کے نوے فیصدممالک اپنی سیکیوریٹی کے لیے امریکہ کے دست نگرہیں اس لیے اس کے خلاف جانہیں سکتے ۔عرب ممالک (جوصحیح معنوں میں چند شیوخ کی جاگیریں ہیں)تمام کے تما م مل کربھی اسرائیل کی مہیب فوجی طاقت کا اورخاص کرفضائی قوت کا سامناکرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ امریکہ ہرسال اسرائیل کوجدیدترین اسلحہ اورٹیکنالوجی سے یوں لیس کردیتاہے کہ پڑوسیوں کے لیے وہ ناقابل تسخیربنارہے۔عرب رجواڑوں نے منظرسے اپنے آپ کوبالکل غائب کرلیاہے۔کاش کہ وہ اندلس کے طوائف  ملکونی سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے جن کوجنوب کی ایک عیسائی ریاست نے ایک ایک کرکے نگل لیاتھا۔اوآئی سی اورعرب لیگ کا کوئی کردارنہیں۔سعودیوں نے جواپنے حلیفوںکی اتحادی فوج بنائی تھی جس کی قیادت راحیل شریف کودی گئی تھی اُس کا کوئی بیان تک نہیں آتا۔وجہ ظاہرہے کہ یہ رجواڑے پولیس اسٹیٹ بنے ہوئے ہیںان کے پاس دشمن سے لڑنے اوراپنادفاع کرنے کے لیے فوج نہیں ہے بلکہ مخابرات (انٹیلی جنس )ہے جس کی تربیت امریکن سی آئی اے کرتی ہے۔اورجس کا بہیمانہ استعمال داعیان ِدین کوٹارچرکرنے اورمخالفین کوموت کے گھاٹ اتارنے کے لیے کیاجاتاہے۔

یواین کی سلامتی کونسل مفلوج ہوچکی ہے ،تبھی تووہ اپنی قرارداد(2735/2024)پربھی اسرائیل سے عمل نہیںکرواسکی ۔یہ قراردادبائنڈنگ تھی مگرامریکہ نے اس کوزبردستی نان بائنڈنگ قراردے کربے اثرکردیا۔آئی سی جے نے ایڈوائزری جاری کی کہ اسرائیل اپنی جارحیت فوراً بندکرے۔ مگرامریکہ نے سارے قواعدوضوابط کوپامال کرتے ہوئے اس پر بھی عمل درآمدنہیں ہونے دیااورنتن یاہوکے خلاف گرفتاری کاوارنٹ بھی ایشونہیں ہونے دے رہاہے۔

یواین سیکریٹری جنرل کواسرائیلی نمائندے بارباربے عزت کرتے ہیں۔سلامتی کونسل کے ارکان کے سامنے اسرائیلی نمائندہ یواین چارٹرکوپھاڑدیتاہے۔اب یواین سیکریٹری جنرل کوPersona non grata(ناپسندیدہ شخص)قرارددیکر اسرائیل میں داخلہ پر پابندی لگادی گئی ہے۔لبنان میں یواین کے جوسلامتی دستے تھے ان پر اسرائیل حملے کرتاہے اوربنجامن نتن یاہوبڑے غرورسے کہتاہے کہ یواین سیکریٹری جنرل کواپنے دستوںکووہاں سے نکال لینا چاہیے ۔ اسرائیلی وزیرتعلیم کہتاہے کہ لبنان کوبھی غزہ کی طرح ہموار کرنا ہے ۔ اس منظرنامہ میں اسرائیل اب اچھی طرح سمجھ چکاہے کہ اُس کوہرطرح سے فری ہینڈ ملا ہوا ہے اورکوئی طاقت اُس کوروکنے والی نہیں ہے۔یہی بات ای یوکے ایک اہم ذمہ دارجارج بوریل نے بھی کہی ہے۔موقع کوسنہری جانتے ہوئے اب اسرائیل اپنے گریٹراسرائیل کے خواب کوپوراکرنے کے لیے نکل کھڑا ہواہے۔

یہ ضرورہے کہ اخلاقی ومعنوی سطح پر فلسطینیوںکوبتدریج کامیابی مل رہی ہے۔پہلے اُس کواقوام متحدہ میں مستقل ممبربنالیاگیااورآبزرورکی بجائے اس کوپرمانینٹ سیٹ دے دی گئی ۔دوسرے نمبرپر۱۷ستمبر2024 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںاس کویہ فتح حاصل ہوئی کہ 120ممبران کی اکثریت نے اُس قراردادکومنظورکرلیاجس میں اسرائیل کو1967پرقبضہ کیے ہوئے علاقوں کومقبوضہ تسلیم کیا گیا اور اسرائیل سے کہاگیاکہ وہ ان علاقوںکوخالی کرے ۔ اس کے لیے اس کوایک سال کا وقت دیاگیاہے۔قابل ِذکرہے کہ اس قرادادکی مخالفت میں صرف چودہ ووٹ پڑے جبکہ 39ممالک نے غیرحاضری درج کرائی اورانڈیابھی بے شرمی کے ساتھ انہیںغیرحاضرملکوںمیں رہا ۔انڈیاکاسرکاری میڈیاپوری طرح اسرائیل کی گودمیں بیٹھاہواہے اوراسی کے بیانیہ کوبے شرمی اورڈھٹائی سے بیچ رہاہے۔بلکہ خفیہ طورپر اسرائیل کوہتھیاربھی دیے جارہے ہیں اورکئی ہزارمزدوربھی انڈیانے اسرائیل بھیجے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ برہمن واد(ہندتو)اورصہیونیت دونوںنسل پرست تحریکیں ہیں اوردونوں ایک دوسرے کی زبردست ہمدرداوراسلام ومسلمانوںکی دشمنی میں ایک سے بڑھ کرایک  ہیں لیکن اس سے زیادہ افسوس اورشرم کی بات یہ ہے کہ خودعرب ملکوں کا سرکاری میڈیابھی مغربی بیانیہ کا ہی پرچارکررہاہے ۔صرف الجزیرہ نے غیرجانبداررپورٹنگ اورصداقت کا ساتھ دینے کی ہمت دکھائی ہے اوراپنے بہت سارے صحافیوںکی قربانی دی ہے۔

بہرحال اقوام متحدہ کی مذکورہ بالا علامتی قراردادکا کوئی عملی فائدہ ہوگایانہیں یہ تووقت بتائے گابظاہرتونہیں لگتاکہ ہوگاتاہم اس سے یہ توپتہ چلتاہے کہ دنیاکی اکثریت فلسطین کے ساتھ ہے اورامریکہ واسرائیل کودنیامیں سیاسی تنہائی کا سامناہے۔یہ بہرحال حقیقت ہے کہ یہ اکثریت کمزورہے اورزیادہ ترتیسری دنیایاترقی پذیرممالک سے تعلق رکھتی ہے ،جن کومعاصرسیاسیات میں گلوبل ساؤتھ کہاجاتاہے۔

اسرائیل اوراس کے اتحادی(یعنی گلوبل نارتھ) اپنی عسکری طاقت ،ٹیکنالوجیکل برتری اورمعاشی دھونس سے دنیاسے اپنی رِٹ منوارہے ہیں۔یہ مغربی دنیااسرائیلی جارحیت سے یوں بھی ایکسپوزہوئی ہے کہ حقوق انسانی کے جوادارے انہوں نے بنائے ،بنیادی انسانی آزاد یوں کے جوتصورات دنیاکودیے اظہارِخیال کی آزادی کا جوراگ صدیوں سے انہوں نے الاپااب خودہی ان سب چیزوں کواسرائیل کے لیے پامال کررہے ہیں!

یہاں غالباًیہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ شام کے بعض آزادعلاقوںمیں اہل سنت نے شیخ حسن نصراللہ کے مارے جانے کی خوشیاں منائیں اور سعودی عرب کے پیرول پررہنے والے سنی دنیاکے بعض حلقوں سے بھی ایسا ہی ردعمل  سامنے آیا جو کہ نہیں آناچاہیے تھا۔خاص کرسلفی مدخلی رجحان رکھنے والے علما اوران کے یوٹیو برزکے تبصرے قابل ِافسوس ہیں۔ایک مدخلی شیخ نے تو’’نصراللہ علیہ لعنۃ اللہ‘‘ کی نام سے ویڈیوبناکرڈالی ۔ (مدخلی سعودی عرب میں ایک متشددسلفی فرقہ ہے جوایک متشدد سعودی عالم ربیع بن ہادی مدخلی سے نسبت رکھتاہے اوراپنے سواسب کو،جن میں اشاعرہ ماتریدیہ بھی ہیں،بدعقیدہ اوردوزخی سمجھتاہے برصغیرمیں یہ اپنے آپ کومنھجی کہتے ہیں )

مجھے معلوم ہے کہ حزب اللہ (جس کو مدخلی علمااوریوٹبرزحزب اللات کہتے ہیں اورنصراللہ کونصراللات)اوردوسری شیعہ ملیشیاؤں نے شام میں اہلِ سنت کا بے دریغ خون بہایاہے۔شامی مظلوموںکی ایسے موقع پرخوشی مناناتوکسی حد تک سمجھ میںآتاہے، مگربڑی بات یہ ہے کہ اہل سنت واہل تشیع کے اختلافات اپنی جگہ ،یہاں دیکھنایہ چاہیے کہ مقابلہ ایسے بے رحم دشمن سے ہے جس کی ڈکشنری میں اخلاقیات کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں اورجونہ شیعہ کوچھوڑتاہے نہ سنی کو۔سواپنے گھرکے اختلافات بعدمیں بھی حل ہوتے رہیں گے مگرکامن دشمن کے خلاف توایک مشترکہ محاذ بنانا چاہیے۔

جب سنی ممالک نے فلسطین کوپوری طرح بے یارومددگاراوراسرائیل وامریکہ جیسے سفاک دشمنوں کے رحم وکرم پرچھوڑدیاہے اورایران ہم مسلک نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی مددکررہاہے توظاہری بات ہے کہ فلسطینیوں اورحماس والوںکا جھکاؤ ایران کی طرف ہوناایک لازمی بات ہے۔اصل قصوران کا نہیں خلیج کے بے غیرت حکمرانوںاورعرب منافقوںکا ہے ! ایران کوکس بنیادپر سنی مطعون کرتے ہیں!ان فریب خوردہ یوٹیوبرزکویہ سمجھناچاہیے کہ اسرائیل نے حسن نصراللہ کواِس لیے نہیں ماردیاکہ انہوں نے شام میں سنیوںپر مظالم ڈھائے تھے اوراسرائیل نے ان کا بدلہ لے لیاہے،نہیں بلکہ اسرائیل نے ان کواس جرم میں ماراہے کہ انہوںنے اہل غزہ کا ساتھ دینے کی کوشش کی تھی۔اتنی بڑی سنی دنیاکیاکررہی ہے ،ان کے علما اوریوٹیوبرزدجال کے خروج اورمہدی کے ظہورکے خیالی سراب کے گھوڑے دوڑارہے ہیں کہ مزعومہ مہدی آئے گااوران کے سارے دلدردورکردے گا!ان کوتوشرم سے ڈوب مرناچاہیے کہ مہدی کا تصورتواہل تشیع کے ہاںان سے زیادہ قوی ہے مگروہ صرف اس کے انتظارمیں نہیں بیٹھے ہیںبلکہ دنیامیں اپنی بقاکے لیے اورآگے بڑھنے کے لیے جوکچھ کرناچاہیے وہ کررہے ہیں۔!

یہ صحیح ہے کہ ایران اس خطہ میں تسلط کے اپنے مفادات ومقاصدرکھتاہے مگرایران کے (اوراس طرح مزاحمتی قوتوں)کے دشمنوں سے ہاتھ ملانے سے اس کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتاہے۔اس کے مقابلہ کے لیے توخودکومضبوط اورمتحدکرناہوگاایران سے مفاہمت کرنی ہوگی اوربین المسالک ڈائیلاگ سے کام لیناہوگا۔خلیجی ممالک کا غزہ کے پورے المیہ کے دوران جس طرح کا المناک،بے غیرتی اوربے حسی کا رویہ رہاہے اُس سے عوام اورحکمرانوں کے بیچ صرف دوریاںبڑھ رہی ہیں۔کرایہ کے لمبے عماموںوالے اورطویل اللحیہ شیوخ کے فتوے امریکہ کے ذلہ ربا حکمرانوںکوکب تک بچائیں گے ۔پوری تاریخ کیاکہتی ہے جب عوام کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوتاہے توبڑے بڑے جبابرہ گرجاتے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ عرب جاگیرداروںکوایران کا خطرہ تونظرآرہاہے مگروہ اسرائیل کے خطرے کونہیں دیکھ پارہے ہیںجبکہ اسرائیلی وزیربن غفیرصاف صاف کہ چکاہے کہ’’ ہمیں اب گریٹراسرائیل بناناہے اورپانچ ممالک کوفتح کرناہے‘‘۔ان پانچ ممالک میں لبنان،سیریا،اردن ،ترکی کا کچھ علاقہ سے لے کرسعودی عرب کا کچھ حصہ شامل ہے۔ترکی صدرنے اسی خطرہ کوبھانپ کرکہاتھاکہ اسرائیل ترکی پر حملہ کرنے والاہے۔لیکن ان کوسمجھناچاہیے کہ جب آپ صرف زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھیں گے تودشمن کوفری ہینڈتوآپ خودہی دے رہے ہیں۔

اس خطہ میں جس ملک سے بھی اسرائیل کوکوئی موہوم سابھی خطرہ ہوسکتاتھااس کوامریکہ اوراس کے حلیفوں نے ختم کرکے رکھ دیا،عراق،لیبیا،شام سب کی یہی کہانی ہے۔ترکی بھی اسرائیل اوربنجمن  نیتن یاہوکے خلاف زبانی اپنی بھڑاس نکالتارہتاہے مگرجیسے ہی امریکہ اوراس کے حلیف یہ محسوس کریں کے کہ وہ واقعی میں اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ پیداکرسکتاہے تووہ اس کی بھی خبرلینے میں دیرنہیں کریں گے۔اس صورت حال میں جبروتشددکے علمبرداراس نظام ِعالم کے فی زمانہ جس کی قیادت امریکہ کررہاہے اورجس کوصہیونی قوتوں کا عالمی مقتدرہ ہینڈل کرتاہے،کے خلاف مزاحمت ایک شرعی وعقلی اورانسانی فریضہ ہے ۔اوراس میں مذہب ومسلک کی محدودتنگ نائیوں سے نکل کرہی یہ مزاحمت کی جاسکتی ہے ۔

شیخ حسن نصراللہ کی شہادت سے پورے خطہ پرایک رنج والم کی کیفیت چھاگئی ۔مگریہ خوف وہراس کا ماحول عارضی رہا ،حزب اللہ نے اپناعبوری صدرنعیم قاسم کومقررکیا جنہوں نے ویڈیوبیان جاری کرکے بتایاکہ حزب اللہ کی دفاعی طاقت پوری محفوظ ہے اورقیادت کا بحران بھی جلدحل کرلیاجائے گاکیونکہ ان کے سسٹم میں سکنڈکمانڈ ہمیشہ تیاررہتی ہے۔ ہاشم سیف الدین جن کونصراللہ کی جگہ لینی تھی کوبھی قتل کردینے کا دعواکیاگیاہے  ۔ اسرائیل نے بیروت پر بھی حملے کیے ہیںاس لیے لبنان کی سرکاری فوج کومزاحمت کرنی چاہیے اورلبنانی حکومت کواورزیادہ فعال کردار اداکرناچاہیے فی الحال تووہ بھی مفلوج سی نظرآرہی ہے۔اورٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی سی کنفیوزن والی حالت میں ہے اپنے عوام کوبچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کرپارہی ہے۔

محورالمقاومہ یمن اورعراق سے برابرحملے کررہاہے جبکہ حزب اللہ نے بھی راکٹ داغنے جاری رکھے ہیں اس سے اندازہ ہوتاہے کہ حزب اللہ اپنے دفاعی کمانڈکومجتمع کرچکاہے۔اسرائیل کے زمینی حملوں کا مقابلہ کامیابی سے کیاجارہاہے۔دوسری طرف حالانکہ اسرائیلی سماج اس وقت پوری قوت سے بنجمن  نیتن یا ہوکے پیچھے کھڑاہوگیاہے مگراسرائیل اب بہت سے لوگوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں رہ گیاہے اس لیے ملک کوچھوڑکرجانے والے اعلی تعلیم یافتوں اورپیشہ وروںکی تعدادمیں برابراضافہ ہورہاہے جس کا اسرائیل کی معیشت پر جلد یا بدیر برا اثرپڑنالازمی ہے۔

تجزیہ نگارنجم سیٹھی کا کہناہے کہ ’’ایسالگتاہے کہ امریکہ اوراسرائیل میں یہ طے پاگیاہے کہ حزب اللہ کونیوٹرلائزکرکے شام پر بھی حملے کیے جائیں۔اورایران اگرعوامی پریشرمیں آکراسرائیل پر حملہ کرتاہے تواس کے خلاف بڑی کارروائی کرنے کا امریکہ اوراسرائیل کے پاس جواز ہوجائے گا۔پھروہ یاتوایران میں Regime change کی کوشش کریں گے (جوکہ اب بھی کرتے رہتے ہیں) اوراس کے بعداس خطہ سے مزاحمتی تحریکوںکونیست ونابودکرکے فلسطینی مسئلہ سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارامل جائے گا۔غزہ کوبربادکرچکے ،لبنان کا کچھ حصہ اورشام کی گولان پہاڑیوںتک کواسرائیل کے اندرضم کرلیاجائے گا۔جیساکہ ٹرمپ کئی بارکہہ چکاہے‘‘۔اورایک عرب مبصرکا خیال ہے کہ:’’اس موقع پر نتن یاہوامریکہ کواوراپنی پبلک کویقین دلاچکاہے کہ اسرائیلی فوجی طورپر جیت رہاہے۔لہذااس کولبنان میں فری ہینڈ دے دیاجائے اورامریکہ اسے یہ فری ہینڈدے چکاہے۔باقی جنگ بندی وغیرہ کی باتیں محض لوگوںکوبے وقوف بنانے کے لیے ہیں‘‘۔

راقم السطورنے عرب میڈیاپر نظررکھی ہوئی ہے اوراس کا بھی یہی خیال ہے کہ غزہ کوتباہ کرکے اب فی الحال اسرائیل جنوبی لبنان اورشام کے کچھ علاقے پر قبضہ کرنے کامنصوبہ رکھتاہے۔اس کے علاوہ  امریکہ اوراس کے اتحادی اصل میں ایران کے نیو کلیر پروگرام کونشانہ بنائے ہوئے ہیں۔اسرائیل ایران کو بار بار provoke کرتاآرہاہے کہ وہ کوئی سخت ردعمل دے کہ اس کے خلاف جنگ چھیڑی جاسکے۔ایسے میں ایران کچھ دنوںتک تو ایک مخمصہ میں پڑگیا۔ایک طرف اس کے عوام کا پریشرتھا کہ اسرائیلی جارحیت کا جواب دیاجائے ،دوسری طرف اس کے لانگ ٹرم مقاصداجازت نہیں دے رہے تھے کہ وہ جنگ میں شامل ہوجائے۔کچھ نہ کرنے کے نتیجہ ہی میںاسرائیل تہران میں گھس کراسماعیل ہنیہ کوشہیدکرنے کی جرأت کرسکا۔لیکن اب اُس نے عوامی مطالبات مانتے ہوئے جوابی حملہ کیا ۔ ایک آپشن یہ بھی تھا جوزیادہ قرین ِقیاس لگتاتھا کہ ایران فی الفورحماس اورحزب اللہ کوجنگی مدددے ،اپنے تجربہ کارجنرل بیروت بھیجے اوراس طرح محورالمقاومہ کوپھرسے اسرائیل کا شدیدمدمقابل بنادے۔لیکن امریکہ اوراسرائیل دونوں ایران سے سیریااوروہاں سے لبنان آنے والی سپلائی پربرابرفضائی حملے کررہے ہیں۔ابھی چنددن پہلے ہی اسرائیل نے سیریامیں روس کے ائیربیس تک کونشانہ بنایا ۔اس لیے جنگی مدد حزب اللہ کودینابہت آسان بھی نہیں ہے ۔اس جنگ میں اسرائیل کا ہارناخودخلیج کے ممالک ،فلسطین کے مستقبل اورلبنان وایران سب کی بقاوتحفظ کا ضامن ہوگا۔اس کی جیت سے امریکہ واسرائیل پھرسے اس خطہ کا نقشہ بدل دیں گے۔

لیکن افسوس کہ خلیج کے چھوٹے بڑے اورثروت مندممالک سعودی عرب ،امارات اوران کے پچھ لگومصراوراردن بھی ایران ،حزب اللہ اورحماس وغیرہ کی شکست میں اپنی فتح دیکھتے ہیں۔وہ (درپردہ )اسرائیل کوفاتح دیکھناچاہتے ہیں اسی لیے سعودی عرب کی قیادت میں فلسطینی مسئلہ کے حل کے لیے ایک شوپیس کی حیثیت کا بین الاقوامی محاذبنانے کوشش کی جارہی ہے جس میں یوروپی یونین کے بعض ممالک بھی ان کے ساتھ ہیں۔یہ بلاک اس مسئلہ کے حل کے لیے مزاحمت کی قوتوں سے بالاہی بالاایک عالمی کانفرنس بلائے گاجس کا میزبان سعودی عرب ہوگا۔اوراُس کے بعدکچھ عملی اقدامات کیے جائیں گے۔

اس بارے میں ابھی کچھ کہناتوقبل ازوقت ہوگامگرخلیج کے عرب ممالک اب تک کے کردار کے مدنظریہ قیاس کیاجاسکتاہے کہ مزاحمت کی قوتوںکواس عمل سے پوری طرح باہررکھ کرفلسطینی اتھارٹی سے سودے بازی ہوگی ۔ غزہ اورمغربی کنارہ کا کچھ حصہ لے کراس پر فلسطین کے قیام کا اعلان کیاجائے گا۔القدس کی صورت حال جوںکی رکھنے کی کوشش ہوگی اوراس کے مشرق میںواقع ابودیس نامی ٹاؤن کوفلسطین کا ممکنہ دارالحکومت قراردیاجائے گا۔عرب ممالک خاص کرسعودی عرب غزہ کی بازآباکاری کریں گے (اگراسرائیل اجازت دے گا)۔مغربی کنارہ میں اسرائیلی سیٹلمنٹ برقراررکھے جائیں گے کیونکہ اسرائیل سردست ایک انچ زمین بھی دینے کے لیے تیارنہیں ہے ۔مغربی کنارہ وہ ہرگزنہیں دے گاکیونکہ اس کووہ قدیم اسرائیلی ریاست جوڈیاسمیریاکے نام سے موسوم کرتا ہے ۔ فلسطینی رفیوجیوں کوکچھ جاب یاپیسے دے دلاکرقصہ ختم کرنے کی کوشش ہوگی ۔اس مجوزہ آزادفلسطین کی حیثیت ایک میونسپلٹی سے زیادہ نہیں ہوگی لیکن سردست دنیاکی رائے عامہ کوبہلانے کے لیے اس طرح کا اقدام غالباًاٹھالیاجائے گا۔

لیکن یہ سب بھی اس وقت کی بات ہے جب اسرائیل اس پر کچھ لے دے کرمعاملہ حل کرنے کے لیے تیارہو۔ابھی تووہ تودنیاکے سامنے ایک آزادفلسطینی ریاست کے قیام کا روادار نہیں ہے۔اس لیے معلوم نہیں کہ خلیجی ممالک اورفلسطینی اتھارٹی کے لوگ کس سراب کے پیچھے دوڑرہے ہیں اورامریکہ اوریہ لوگ کس طرح دنیامیں دوریاستی حل کا ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں۔البتہ یہ بات کھل کرسامنے آگئی ہے کہ عرب ممالک سردست اس سے زیادہ کچھ کرنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔سعودی ولی عہد(اوراصل حکمراں)محمدبن سلمان کی امریکی خارجہ سیکریٹری سے بات چیت کی خفیہ آڈیوبھی جولیک ہوگئی سوشل میڈیاپر گردش میں ہے جس میں وہ صاف طورپر کہہ رہے ہیںکہ وہ ’’فلسطینیوں کے بارے میںکچھ نہیں سوچتے ‘‘(I don’t care)۔المبادرۃ الفلطینیہ (یافلسطینی انیشئیٹو) کے صدرمصطفی البرغوثی یہی کہتے ہیںکہ ’’عرب ممالک اورفلسطینی اتھارٹی کے لوگ بڑی غلطی کررہے جوامریکہ کی طرف دیکھتے ہیںکہ وہ ان کا مسئلہ حل کرادے گا۔ان کا کہناہے کہ امریکہ اس نزاع میں پہلے ہی دن سے اسرائیل کی سائڈ پر ہے توکیسے اس سے امیدکی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی پازیٹیویاکسی منصف   ثالث کا رول اداکرے گا۔‘‘

جنگ بازاورعیار نتن یاہونے اپنے حربی مقاصدمیں بھی توسیع کرلی ہے۔اب امریکہ کی بھرپورحمایت سے نتن یاہوکی یہ ہمت ہوگئی ہے کہ وہ صاف کہہ رہاہے کہ اِس خطہ کونئی shape دینی ہے۔لبنان پر کیے گئے اپنے حملہ کوبھی اس نے آپریشن نیوآرڈرکا نام دیاہے۔

تاہم اسرائیل پر ایران کے حملہ نے صورت حال کوکچھ بیلینس کیا۔دواکتوبر2024کوایران نے 200 ہائی سپرسونک میزائل اسرائیل پر داغے، جس سے صورت ِحال میں تبدیلی آئی۔گوان حملوںمیں اسرائیل کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوامگرایران کے بہت سے میزائل اہداف تک پہنچے جوجاسوسی کے نظام مراکزاوراسلحہ ڈپو،پلاننگ کے مراکزاورمعاشی اہمیت کے حامل اداروںتک ہی محدودتھے۔امریکہ اوراسرائیل دونوںکا دعواہے کہ انہوں نے تمام میزائل انٹرسیپٹ کرلیے تھے، مگرسابق امریکی انٹیلی جنس آفسیراسکاٹ رٹرکا مانناہے کہ ایران کے میزائل اپنے اہداف تک پہنچے ۔اسرائیل میں وہ رات قیامت کی رات تھی جب پورے اسرائیل کے لوگ خوف ودہشت میں تھے۔صہیونیوں کے لیے یہ خوف ودہشت جانی نقصان سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس خوف واضطراب سے اسرائیل کے شہری ناآشناہیں،وہ اب اسرائیل کوغیرمحفوظ قراردے کرامریکہ ویوروپ کی طرف بھاگناشروع کردیں گے ۔جونفسیاتی اوراقتصادی بے چینی میں اضافہ کرے گا۔ایران نے خبرداربھی کیاہے کہ اگراسرائیل نے جوابی حملوں کی کوشش کی تواگلی بارایران اسرائیل کے انفرا سٹرکچر کونشانہ بنائے گا۔یہ تویقینی ہے کہ اسرائیل خاموش تونہیں بیٹھے گااوراس کی امریکہ سے خفیہ بات ہورہی ہے کہ اگلانشانہ کس کوبنایاجائے ۔

امریکی فوجی ائرکرافٹ کیریر بحری بیڑے ایران کے ساحلوں پر پہنچ گئے ہیں۔امریکہ اپناجدیدترین Thadسسٹم بھی اسرائیل میں ڈپلائے کردیاہے۔ اور دنیاکے سامنے یہ بیانات بھی متواتردے رہاہے کہ ہم جنگ کے دائرہ کوپھیلنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔لیکن یہ کیسی کوشش ہے کہ ایک Monster  کوآپ سرسے پاؤںتک خطرناک ہتھیاروں سے لیس کرنے کے بعدگاؤںمیں بھیج دیں اورپھریہ امیدلگائیں کہ وہ گاؤں پر حملہ نہیں کرے گا!

سولہ اکتوبر2024 کو حماس کے سربراہ اوراسرائیل پر سات اکتوبر(2023 )کے حملہ کی کامیاب پلاننگ کرنے والے یحیی السنواربھی اسرائیلی فوجیوں سے شجاعت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے شہیدہوگئے۔اس وقت وہ رفاہ کے تل السلطان ایریامیں تھے جب ان پر حملہ کیاگیا۔

یحیی ابراہیم حسن السنوار29اکتوبر1962کوغزہ کے خان یونس میں پیداہوئے تھے جواس وقت مصرکے زیرانتظام تھا۔سنوارکئی سال اسرائیلی جیل میں رہے وہیں انہوں نے ہبرو(عبرانی )سیکھ لی تھی۔وہ نہایت ذہین اورمنصوبہ سازتھے جن کی پلاننگ سے اسرائیل بھی خوف کھاتاتھا۔اب ان کے بعدحماس کا سربراہ کون ہوگااس کا اعلان نہیں کیاگیاہے۔ویسے حماس کے اب سب سے بڑے قائدخالدمشعل ہیںجوقطرمیں قیام پذیرہیں۔امریکہ سے لیکراسرائیل اوران کے حلیفوں کے کیمپ میں سنوارکی شہادت پر خوشیاںمنائی گئی ہیںاوربھارت کے برہمنی میڈیانے بھی خوشی منائی مگران بیچاروںکومعلوم نہیں کہ اسلامی روایت میں شہادت کی موت اعلی درجہ کی موت سمجھی جاتی اورفلسطینیوں کے لیے تویہ ایک فخرکی چیزہوتی ہے۔چنانچہ حماس کے لوگوں نے اورفلسطین کے عام لوگوں نے بھی اس کا اظہارکیاہے کہ سنوارکی شہادت سے حماس کی مزاحمت کمزورنہیں ہوگی بلکہ اُس کواس سے اورزیادہ طاقت ملے گی ۔بلکہ یواین اومیں ایران کے مندوب نے بھی نہایت جرأت سے اسی بات کا اعادہ کیا۔

٭  مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

ای میل :[email protected]

 

 

 

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.