ارد ونعت میں عصری حسیت

ڈاکٹر فیضان شاہد
جون 2025

نعت کی تعریف سے ہم سب واقف ہیں لیکن عصری حسیت کیا ہے اس مضمون میں سب پہلے اسے جاننے کی ضرورت ہے۔ عصری حسیت در اصل ان محسوسات اور ادراک کا اصطلاحی نام ہے جو کسی بھی عہد میں موجود کوئی بھی انسان رکھتا ہے۔ یہ محسوسات اور شعور ہر انسان کے الگ ہو سکتے ہیں اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عصری حسیت گویا اضافی قدر ہے۔ چوں کہ عصری حسیت یا شعور ایک جیسے نہیں ہوتے اس لیے لوگوں کے سوچنے اور چیزوں کو دیکھنے کی جہتیں بھی مختلف ہو سکتی ہیں جب ہم عصری حسیت کی بات شاعری میں کرتے ہیں تو اس کا انحصار شاعر کی پسند و نا پسند تعملات اور دیگر محرکات سے بھی ہوتا ہے اس لیے نادید شدہ عصر کی درست اور غیر جانبدار تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان عوامل پر بھی نظر رکھیں جو شاعر کو متاثر کرتے ہیں اور اس کا اثر اس کے کلام میں بھی دیکھنے کو ملاتا ہے۔

اس طرح ہم عصری حسیت کو دو بنیادی جہات میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک وہ حسیت جو ذاتی و شخصی ہو اور دوسری وہ حسیت جس کا تعلق مجموعی طور پر اس عصر کے سماجی، تہذیبی، سیاسی و ثقافتی حالات سے ہو۔

زبان و ادب میں عصری حسیت پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کوئی بھی قلم کار اپنے آس پاس کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر یا نیرنگ زمانہ سے راہ فرار اختیار کر کے کلام نہیں کہہ سکتا اسی لیے یہ کہنا درست ہے کہ شاعری میں شاعر کے داخلی احساسات خارجی ماحول کی مرہون منت ہوتے ہیں، چناں چہ یہی وجہ ہے کہ اس سے فکر و تخیل میں عصری شعور کی کار فرمائی ہوتی ہے گویا اس کے دماغ میں نفس مضمون کے ساتھ عصری پس منظر بھی چلتا رہتا ہے اس طرح نعتیہ کلام میں بھی وہ اپنی تمام عقیدتوں کے اظہار کے ساتھ اس پر جو بیت رہی ہوتی ہے اس کا بھی ذکر شعوری یا غیر شعوری طور پر کرتا ہے۔

نعت کے ساتھ یہ عمل بھی خاص رہا ہے کہ ایک طویل عرصے تک شعرا نے اس میدان میں محض عقیدت کے اظہار اور حصول ثواب کی نیت تک ہی خود کو محدود رکھا، حالاں کہ یہ چیز نعت کے ابتدائی نمونوں میں بھی شامل رہی ہے۔ جنگ آزادی کے بعد ہمارے جتنے بڑے شعرا نے نعتیں کہیں وہ سب عصری حسیت سے معمور نظر آتی ہیں چناں چہ ۱۸۵۷ میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد حالی نے اپنی مسدس میں جو نعت کہی ہے اس سے ان کی عصری حسیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے حالی کا کرب پورے ملک وملت کا کرب تھا۔ حالی کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

تاریخ اور تفصیل سے بچتے ہوئے یہ عرض کروں کہ بڑی شاعری کی نمایاں خصوصیت اس کی آفاقیت ہے ، وہ زمان و مکان، رنگ ونسل، قوم، زبان اور تمام تر سرحدوں کو توڑ دیتی ہے، چناں چہ ہزار سال پہلے کا بڑا شعر بھی محسوس ہوتا ہے کہ آج کا شعر ہے اس میں آج کا کرب اور آج کا آشوب جذب ہو گیا ہے۔ اس مقالے میں عصری حسیت سے میرا مقصود یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آخری دور اور اکیسویں صدی میں جو نئے مسائل سامنے آئے ہیں نعتیہ شاعری میں اس کو کس طرح سے موضوع بنایا گیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہر دور میں دنیا کے ہر شخص کے لیے اسوہ ہے اور قیامت تک رہے گی۔ جب نعت گو آپ کی محبت سے سرشار ہو کر کلام کہتا ہے تو قیامت تک ترو تازہ رہنے والی شخصیت اور اس کا پیغام یا ان پر کی جانے والی گفتگو بھلا عصری حسیت سے عاری کیوں کر ہوسکتی ہے؟

نعتیہ ادب میں نعت گو شعرا نے جہاں اپنے داخلی جذبات کے تعو کے تعلق سے آرزو، استغاثہ ، اظہار عشق و محبت یا قلبی واردات، مدینہ سے جغرافیائی دوری جیسے موضوعات کو شامل کیا ہے وہیں اللہ کے رسول صلى الم کی سیرت و شمائل کے حوالے سے آپ کی مکمل زندگی اور آپ کی زندگی کے متعلقات کو بھی شامل کیا ہے۔

نعتیہ ادب میں شاعر کی حساسیت کا تقاضہ ہے کہ وہ سنجیدگی، متانت، لہجے اور لفظیات کے انتخاب و تعین میں ذہانت اور باریک بینی سے کام لے۔ چناں چہ ہمیں یہ تمام چیزیں بہت سارے شعرا کے کلام میں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔

نعتیہ شاعری کا تعلق شاعری برائے زندگی سے ہے اس لیے اسے مقصدیت سے بھر پور شاعری کہا جاتا ہے چناں چہ شعر ارحمت اللعالمین سے عقیدت کا اظہار مختلف پیرائے میں کرتے ہیں اور اس درد کا بھی شدت سے اظہار کرتے ہیں جو وہ اپنے اطراف میں محسوس کرتے ہیں۔ چناں چہ نعیم صدیقی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں وہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرتے ہوئے اپنے دل کی بے چینی کو بیان کرتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے:

اے میرے نبی صدق و صفا جب دل پر شب غم چھاتی ہے

اور دل کے شب غم میں کوئی جب برق بلا لہراتی ہے

اور برق بلا جب بن کے گھٹا باران شرر برساتی ہے

ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل ایسے میں تیری یادآتی ہے

بن باپ کے عاجز بچے جب افلاس کے گھر گھر میں پلتے ہیں

اور ان کے افسردہ چہرے جب پیٹ کی آگ میں ک جلتے ہیں

کچھ جھوٹی امیدوں سے ان کو جب بیوہ ماں بہلاتی ہے

ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل ایسے میں تیری یاد آتی ہے

جب تخت بچھاتے ہیں اپنا نمرود نئے شداد نئے

شمشیریں جب لہراتے ہیں مقتل میں کھڑے جلادنئے

نازک سے ضمیر انساں پر سل جبر کی جب لد جاتی ہے

ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل ایسے میں تیری یاد آتی ہے

اس نعتیہ کلام کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنے آس پاس کے حالات کو کس قدر شدت سے محسوس کیا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ حالات میں جہاں بیشتر عوام غربت اور پریشانی سے دوچار ہیں، جہاں یتیم بچے بھوک سے بلکتے ہیں، جہاں افلاس اور بھوک سے تقریب بارہ فیصد سے زائد بچے بے چینی اور مایوسی میں زندگی گزارتے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح مرجاتے ہیں، ایسے ہی یاس و قنوطیت کے ماحول میں شاعر یتیموں کے والی، غلاموں کے مولا، بیواؤں کے معاون اور مظلوموں کے محافظ کو شدت کے ساتھ یاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں آپ کی بہت سخت ضرورت ہے۔ آپ ہی ان دکھوں کا مداوا ہیں۔ شاعر نے حالات کی سینی کو بتانے کے لیے لفظ برق، گھٹا اور بار ان کا استعمال کیا ہے عموما یہ الفاظ انسانی زندگی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس کی حسیت کا یہ انوکھا انداز ہے کہ اس نے ان تینوں لفظوں میں ایک لفظ کے اضافے کے بعد مفہوم کو بالکل الٹ دیا ہے اور شعر میں حسن کے ساتھ ساتھ حالات کی سنگینی کو بتانے کا مقصد بھی پورا ہو گیا ہے۔ اسی طرح شاعر حفیظ میرٹھی کی یہ پکار :

کہاں ملے گا زمانے کو اب قرار حضور

ہوس کے ہاتھ میں آیا ہے اقتدار حضور

اور انھی کے ایک دوسرے نعتیہ کلام کا مصرعہ ہے کہ :

راہ کی ان کو خبر ہے نہ شعور منزل

قابل رحم ہیں اس دورکے رہبر آقا

ملک کا موجودہ نظام، اہل سیاست کے درمیان اقتدار کے حصول کی ہوس، دولت کی ہوس، نفسانی خواہشات کے تکمیل کی ہوس کو حفیظ میرٹھی نے نعت رسول مقبول میں جس طرح سے پر ویا ہے گویا عصر حاضر کے نظام پر ان کا تلخ طنز ہے اور حضور پاک سے شکایت اظہار محبت کا بھر پور انداز بھی۔

آج پوری دنیا امن و مساوات اور خواتین کے حقوق کی باتیں کرتی ہے، خود کو امن کا پیامبرسمجھتی ہے اور امن کے قیام کے لیے دوسروں کے امن کو قتل خوں ریزی سے غارت کرتی ہے۔ آج دنیا کو یہ معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت قلیل مدت میں پوری دنیا کو مساوات کا پیغام دیا اور آپس میں لڑنے والوں کو ایک دوسرے کا محسن و غم خوار بنادیا تھا عرب جس میں ایک زمانے تک نسلی برتری کا بول بالا تھا آپ کی مقدس شخصیت نے ان کے اندر سے کبر اور نخوت کو ختم کیا لیکن ان تمام کے باوجود دنیا نے اس سے آنکھیں بند کر لی ہیں آج بھی دنیا کا وہی حال ہے۔ ان کے اسی احوال کے تعلق سے ابو المجاہد زاہد نے اپنی حسیت کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے:

سبق مساوات کا پڑھا کر غرور نسل وطن مٹا کر

بدل دیے زندگی کے تیور درود تم پر سلام تم پر

یوں تو شعرا نے ہر دور میں حقوق اور مساوات اور بالخصوص خواتین کے مسائل کا ذکر کیا ہے اور غزلوں اور دوسری اصناف شاعری میں اس طرح کی چیزوں کا ذکر خاص طور سے ملتا ہے مگر نعت میں سماج کے اس تلخ حقیقت کو کس طرح دیکھا ہے ماہر القادری علیہ الرحمہ کی ایک نعت میں اس کی چند جھلکیاں ہمیں دیکھنے کو ملیں گی:

عورت کو حیا کی چادر دی غیرت کا غازہ بھی بخشا

شیشوں میں نزاکت پیدا کی کردار کے جو ہر چمکائے

اسی مضمون کو ابو المجاہد زاہد نے اپنی ایک نعت میں کچھ یوں بیان کیا ہے:

ذلیل تھی چار سمت عورت اسے عطا کی زہے عنایت

نقاب، عفت، حیا کی چادر درود تم پر سلام تم پر

اسی مضمون کو سرفراز بزمی نے اپنے کلام میں کچھ اس طرح سے باندھا ہے:

ابو قبیس پر مدفون بیٹیوں کی قسم

حصورؐ آپ کی آمد نشان رحمت ہے

(جبل ابو قبیس صفاکی جانب واقع ایک پہاڑی جہاں سے سعی کی ابتدا ہوتی ہے جس کا نام قبیلہ مذحج  کے ایک شخص کی کنیت کے نام پر ابو قبیس پڑا) اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ موضوع بحث آپ کا لایا ہوا دین ہے اس وقت مظالم کے شکار بھی سب سے زیادہ اس دین کے ماننے والے ہیں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے ہیں آپ سے محبت کی ہے آپ کے دین کو اپنایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ پر جان دینے کو تیار ہیں یہاں مسکراہٹ کا ذکر ہم نے اس وجہ سے کیا کہ آپ ﷺ کی مسکراہٹ بھی ایک معجزہ تھی، آپ جب تبسم فرماتے تھے تو ہر طرف خوشیاں اور امن کی بارش ہونے لگتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زمین پر رحمت برسنے لگی ہو۔ شاعر بیکل اتساہی نے اسی مسکراہٹ کا انتظار ہے وہ کہتے ہیں:

لٹ رہا ہے چمن جھومتی ہے خزاں

دین ملت کے لٹنے لگے کارواں

ہر طرف کفر و ظلمت کا چھایا دھواں

ہر نظر تیرگی ہر قدم آندھیاں

آفتاب ازل کی ہو پہلی کرن

مسکرا دو تو عالم بدل جائے گا

عہد حاضر کا ایک تر و تازہ شاعر جب حالات حاضرہ کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ساختہ یاد آتی ہے وہ ان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان تمام حالات کا شاکی ہوتا ہے اور ظالم اہل اقتدار کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بطور اسوہ پیش بھی کرتا ہے تا کہ سماج بدلے، حکمران عبرت حاصل کریں، کلام ملاحظہ فرمائیں:

تمام فرعونیت کے قلعوں کی اور فصیلوں کی اصل بنیاد ابنِ آدم کے خون اور ہڈیوں سے تعمیر کی گئی ہے

مگر حضور آپ کی حکومت تمام شاہوں سے مختلف ہے

کہ آپ کے پاس ایک چادر ہے، ایک تہہ بند ، اک عمامہ

کھجور کی چھال اور پتوں کا ایک بستر

سوائے زمانے کے بادشا ہو!

لو! تم بھی دیکھو یہ شاہ کونین کا اثاثہ

سنواے تانیثیت کے نعرے لگانے والو!

رسولِ انسانیت نے مظلوم عورتوں کو حیات بخشی

رسوم وحشت کے خونی پنجوں سے ان کو راہ نجات بخشی

تمام عزت، وقار کی کائنات بخشی

حضور! کیا ہے بساط میری کہ نعت لکھوں

مگر میں دنیا کے ہٹلروں کی سماعتوں کو جگا رہا ہوں

تمام دہشت پسند لوگوں کو آج میں یہ سنا رہا ہوں

تمام انسانیت کے قاتل گروہوں کو یہ بتارہا ہوں

رسول رحمت کی زندگی کا یہ باب روشن دکھا رہا ہوں

میں آج طائف، حدیبیہ اور فتح مکہ کی یاد ان کو دلا رہا ہوں

حضور! میری بساط کیا ہے کہ نعت لکھوں

مگر مری ایک آرزو ہے کہ اپنے خونِ جگر سے اوراق زندگی پر بس آپ ہی کی صفات لکھوں

مذکورہ نعت ڈاکٹر خالد مبشر کی ہے۔ شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو موجودہ دور کے لوگوں کے سامنے جس انداز میں رکھا ہے، یہ شاعر کی نبی سے محبت ، جذباتی لگاؤ اور عصری حسیت، شعور اور آگہی کی عمدہ مثال ہے۔

آج کے قومی و ملی مسائل و واقعات سے مماثل اپنے دور کے احوال کو نعیم صدیقی مرحوم نے اپنی ایک نعت میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے جس میں زمانی بعد کے باعث آفاقیت کا عنصر شامل ہے ملاحظہ کیجیے یہ شعر:

کتنی آج گراں ہو گئی حیات امت

ارزاں بہت ہی خون مسلماں ہے اے حضور!

لاشے تڑپ رہے ہیں سردار و زیر تیغ

کیا پرفتن یہ حشر کا ساماں ہے اے حضور !

اوراسی مضمون کو کلیم عاجز نے کچھ یوں باندھا ہے وہ باد صبا سے مخاطب ہیں، نعت ملاحظہ فرمائیں:

ادب سے پہلے سلام ان کو اے صبا کہیو

پھر اس کے بعد غریبوں کا ماجرا کہیو

کمی نہ کیجیو کچھ اس میں اپنی جانب سے

گزر رہی ہے جو ہم پر ذرا ذرا کہیو

نہ غم گسار نہ ہم دم کوئی رہا کہیو

بس ان کے نام کا باقی ہے آسرا کہیو

برائے نام ہی نسبت جو ان سے رکھتے ہیں

اس ایک جرم کی کیا کیا ملی سزا کہیو

دو ایک حادثہ ہوتا تو صبر کر لیتے

بندھا ہوا ہے مصائب کا سلسلہ کہیو

ایک اور نعت میں مزید کہتے ہیں:

کہیو کہ دلوں پر چھائی ہوئی ہر سمت شکستہ حالی ہے

دن بھی ہے بڑا سونا سونا اور رات بھی کالی کالی ہے

کہیو کہ ستم نے تیروں کی بوچھار ہمیں پر ڈالی ہے

ہر شام نیا ہنگامہ ہے ہر صبح نئی پا مالی ہے

ایک ایک لفظ حقیقت کو چیخ چیخ کر بیان کر رہا ہے۔

اس وقت مسئلہ فلسطین دنیا کے سب سے سنگین اور کربناک مسائل میں سے ایک ہے اور گزشتہ پانچ دہائیوں سے یہ مسئلہ ملت کے لئے ایک فتنہ بنا ہوا ہے قبلہ اول پر یہودیوں کا قبضے نے پوری دنیا کے شعرا اور ادیبوں کو بے چین کیا ہے چنانچہ ہماری نعتیہ شاعری بھی اس سے خالی کیسے رہ سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ احمد ندیم قاسمی نے اپنا مدعا کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے

رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا

اس طرح فلسطین میں اسرائیل نے نو جوانان بنی ہاشم پر جو ظلم کی تلوار میں چلائی تھیں اسے کلیم عاجز نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے شکایت کی اور اپنے دل کا درد بیان کیا ان حالات کو ایک دردمند معاشرہ محسوس کر سکتا ہے۔

زخم کھائے ہوئے سر تا بہ قدم آئے ہیں

ہانپتے کانپتے اے شاہ امم آئے ہیں

کشمیر کے حالات کے پس منظر میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

ہمالے کی آنکھوں کے کاجل سے پوچھو

وہ کشمیر کے آج سے کل سے پوچھو

کبھی بل سے پوچھو کبھی ڈل سے پوچھو

وہ دوشیزہ بہنوں کے آنچل سے پوچھو

زمیں بن گئی کربلا کملی والے

زمانے کی بدلی ہوا کملی والے

ملک میں بلڈوزر کلچر آج کل عام ہے یہ بلڈوزر کلچر کن پر ظلم کرتا ہے ہر ذی شعور اور عدل پسند کو معلوم ہے کلیم عاجز نے اپنی بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے اس کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے یہاں شاعر کی حساسیت ہے اور اس کی دور اندیشی کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:

اے باد صبا کہیو ان سے وہ جن کی کملیا کالی ہے

اب تو ان کے غلاموں کے گھر کی دیوار الٹنے والی ہے

مدارس، اوقاف، مکاتب اور خود ملت کے اتحاد پر جس طرح کے ڈورے ڈالے گئے ہیں اور جس میں ملت کےکچھ خود نام نہاد لوگ بھی شامل ہیں انھیں کے لیے اعجاز رحمانی نے اپنی ایک نعت میں کہا تھا:

دین سے اس کو مطلب کیا ہے شاہ امم سے نسبت کیا

وہ انساں جو انسانوں سے نفرت کا اظہار کرے

ملک میں ناموس رسالت پر جس طرح سے حملے ہو رہے ہیں اور جس تکلیف سے امت گزر رہی ہے اس کا اظہار شاعر اپنی نعتیہ شاعری میں کرتا ہے:

ان کی ناموس پر قربان اگر آنچ آئے

سر اتر جائے میرا خاک پہ دستار ملے

اس طرح بھی محسوس کرتے ہیں کہ آج کے دور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پوری انسانیت کے لیے اور آپ کا لایا ہوا پیغام پورے عالم کے لیے کتنا اہم ہے اور پوری دنیا کو آپ کی کس قدر ضرورت ہے:

آج کی الجھنوں میں پھنسی زندگی

پوچھتی پھر رہی ہے پتہ آپ کا

(حفیظ میر ٹھی)

دنیا کے بڑے بڑے نظام جنہوں نے آپ کی لائی ہوئی شریعت کا، سنت کا، طریقت کا مذاق اڑایا وہ سب کے سب ڈھیر ہو گئے او آپ کا لایا ہوا دین باقی ہے پھل پھول رہا ہے اور تا قیامت باقی رہے گا۔

دیکھ لو منہ کے بل گر پڑا وہ نظام

جو اڑاتا رہا مضحکہ آپ کا

(حفیظ میر ٹھی)

آپ  دیکھیں کہ عصری شعور اور عصری حسیت صرف مضمون کی سطح پر ہی نعت میں موجود نہیں ہے بلکہ تخلیقی سطح پر بھی اس کی حساسیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے عصری شعور کو تخلیقی سطح پر بھی شعری متن کی مختلف ہیئتی شکلوں میں پیش  کیا گیا ہے۔ چناں چہ نعتیہ غزلیں، نعتیہ نظمیں، نعتیہ مسدس، نعتیہ مثنویاں، نعتیہ قطعات نعتیہ نظم معریٰ، نعتیہ آزاد نظم ، نعتیہ ہائی کو ، نعتیہ ماہیے ، الغرض  شاعری کی مختلف  ہیتوں میں شاعری کی نمونے اس وقت موجود ہیں۔ اور یہ تمام طرح کی نعتیہ شاعری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ نعتیہ شاعری فکری وفنی سطح پر بھی عصری شعور کا واضح انعکاس موجود ہیں۔

 

 

 

 

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.