تقریباً نصف صدی قبل جدیدیت کی حمایت میں اردو شاعروں کا جو پہلا جتھا سامنے آیا ان میں وہ بھی تھے، جنہوں نے پرانے نقوش سے یکسر انحراف کرتے ہوئے نئی گزرگاہوں کو تلاش کیا اور وہ بھی جن کے تیشۂ فکر نے پرانی عمارتوں کی بنیادوں پر وہ تعمیرات کیں، جن میں نہ دھوپ کا گزر تھا، نہ ہوا کا۔ مگر انہی شعرا میں ایک باشعور طبقہ ایسا بھی تھا، جس نے پرانی عمارتوں کو نہ صرف یہ کہ نیا رنگ و روغن دیا؛ بلکہ اس کی جدید کاری اس طرح کی کہ یہ تعمیرات زیادہ روشن اور زیادہ ہوادار نظر آنے لگیں۔ یہاں اگر چند نام بھی لئے جائیں تو ایک طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے۔ جنہوں نے کلاسیکی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے غزل کو عصری حسیت کا آئینہ بنایا یا پھر لفظوں کے وسیع تر امکانات کی نشاندہی کی، ان کے تتبع میں وہ نسل بھی سامنے آئی، جس نے اپنے پیشروؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اس کارواں کو آگے بڑھایا؛ بلکہ جدید شاعری کی ایک واضح تصویر بھی ہمارے سامنے پیش کی۔ بعد میں آنے والے ان شعرا میں ایک نام پروفیسراجلال مجید کا ان معنوں میں اہمیت کا حامل ہے کہ اُن کے شعری دروبست میں بھی وہ سارے رنگ موجود ہیں، جن سے نئی شاعری کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ یہ دروبست اور یہ اہتمام لفظوں کی سطح پر بھی ہے اور موضوعات کے حوالے سے بھی۔
سور سانپ بلی میں کچھ بھی بنوں
یہ مٹی کی کایا نہیں چھوڑتا
لذتوں کے درمیاں خوف و خطر اچھا لگا
پیار کے اِس کھیل میں وہ بے ہنر اچھا لگا
جگمگاتے شہر کی دیوانگی کے درمیاں
صوفیوں کی بے نیازی کا کھنڈر اچھا لگا
مٹی تھا کس نے چاک پہ رکھ کر گھما دیا
وہ کون ہاتھ تھے کہ جو چاہا بنا دیا
بغل میں لئے گھومتا ہوں سدا
کہیں اپنا چھاتا نہیں چھوڑتا
مصلحت، موقع شناسی، پیش بندی احتیاط
میں کھڑا ساحل پہ اس کو ڈوبتا دیکھا کیا
کوئی تماشا کوئی کھیل دل کو بھاتا نہیں
کسیلا ذائقہ اور بے دلی کا سامنا ہے
عجیب شور و طلاطم ہے روح میں جب سے
کسی کی سبز خنک خامشی کا سامنا ہے
وہ ہوتا جا رہا ہے میرے جیسا
اسے میں اس کا جیسا چاہتا ہوں
یہاں ہوں اپنے ہی ملبے کے نیچے
کوئی سنتا نہیں میں چیختا ہوں
تلاش تھی نہ کوئی جستجو وغیرہ تھی
مگر مزے کی تھی جو گفتگو وغیرہ تھی
کہ چاند واند تھا اور ساتھ وات اس کا تھا
کھلے تھے پھول بھی اور آب جو وغیرہ تھی
اجلال مجید ایک طویل عرصے سے میدان سخن میں سرگرم ہیں۔ انھوں نے ادھر پچاس ساٹھ برسوں میں ادب کے بدلتے رنگوں کا نہ صرف یہ کہ سنجیدگی سے مطالعہ کیا بلکہ اپنی غزلوں میں برتا بھی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک مختصر سا شعری مجموعہ ”خود گرفتہ“کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ جس میں تقریباً چھ درجن غزلیں یا منتخب اشعار درج ہیں۔
“خود گرفتہ” پر مختصر لیکن جامع پیش لفظ مشہور شاعروادیب جاوید اختر نے لکھا ہے جس میں وہ اجلال مجید کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”اجلال مجید صاحب اپنی زندگی میں ایک خاموش طبیعت، منکسرالمزاج شخص ہیں۔ ایک (ایسے) فنکار جسے ساز بجانے تو آتے ہیں مگر اپنا ڈھنڈورا پیٹنا نہیں آتا“۔
یہ سچ ہے کہ اجلال مجید عام طور پر ادبی محفلوں اور اس سے وابستہ شعری ہنگامہ آرائیوں سے بہت دور رہتے ہیں؛ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کا شاعرانہ تعارف یا ان کی ادبی حیثیت کسی طرح کم ہو۔ ان کا جو بھی شعری اثاثہ منظر عام پر آیا ادب کے سنجیدہ حلقوں میں اسے پذیرائی ملی۔ ان کے کئی اشعار کی گونج دور دور تک سنی جاسکتی ہے جیسے کہ یہی اشعار:
منزل پہ ہوش آیا کہ راہوں میں مثل جاں
اک شخص ساتھ ساتھ تھا جانے کدھر گیا
دریا چڑھا تو پانی نشیبوں میں بھر گیا
اب کے بھی بارشوں میں ہمارا ہی گھر گیا
پریوں کے دیس والی کہانی بھی خوب ہے
بچوں کو جس نے پھر یوں ہی بھوکا سلا دیا
ایک بھی دیوار سادہ رہ نہ پائی شہر میں
ہر گزرتا ہاتھ رک کر کچھ نہ کچھ لکھتا گیا
”خودگرفتہ“ کا شعری سرمایہ جو بیشتر چھوٹی بحور اور سہل ممتنع سے عبارت ہے، اس میں زبان و بیان کے لطف کے علاوہ تحیر اور تجسس کے وہ سارے رنگ موجود ہیں جو اِدھر بیسویں صدی کے نصف آخر کی شاعری میں عام طور پر نظر آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو موجودہ شعری اثاثہ میں لہجے کی انفرادیت یا لفظوں کا ایسا تخلیقی نظام جس کو کسی خاص شاعر سے منسوب کیا جاسکے، میں سمجھتا ہوں کہ غیر ضروری ہے، کیونکہ ہرعہد اپنے داخلی اور خارجی مسائل کے اظہار کے لئے نہ صرف لفظوں کا ایک خصوصی نظام لاتا ہے بلکہ دروبست میں اظہار کا اُس کا اپنا ایک قرینہ بھی ہوتا ہے جس کے حوالے سے وہ عہد اور اس کا ادب پہچانا جاتا ہے۔ اجلال مجید کے شعری سرمائے میں وہ الفاظ بھی ملتے ہیں جو غزل کی فضا کے لئے نامانوس سہی لیکن بہرحال آج کے شعری اظہار کا ایک ذریعہ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی ایسے الفاظ کا خلاقانہ شعری استعمال کرکے اپنے عہد کی عکاسی کی ہے۔ اِن کے یہاں محاوروں کو بھی پوری فنکاری کے ساتھ برتا گیا ہے۔ درج ذیل اشعار میری مندرجہ بالا بات کی تائید کے لئے کافی ہیں۔
اب وہ دریا رواں نہیں ہوگا
نیکیاں اتنی ڈال آیا ہے
یوں بھی اکثر جہاں میں ہوتا ہے
کاٹتا وہ نہیں جو بوتا ہے
کجی تو اس کی فطرت میں ہے شامل
مگر ایک ٹیڑھ سی ہے خود اپن میں
یہ کیچوؤں کا لمس یہ تاریکیوں کی باس
مجھ کو کہاں پہ چھوڑ گئی روشنی کی آس
ایک اک کرکے اُڑ گئے پنچھی
خود گرفتہ چٹان تنہا ہے
اڑتی چڑیا کا سایہ ہے
میں سمجھا پتھر آیا ہے
شریانوں میں پھرے درندہ
قید مشقت سہے درندہ
صورت سیرت صدا سماعت
جھاڑی جھاڑی چھپے درندہ
اجلال مجید کے یہاں ہوا کا استعارہ بھی اپنے وسیع تر مفہوم میں متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ یہ ہوا کہیں سیاسی و سماجی انتشار کی علامت ہے اور کہیں نشاط و ملال کا استعارہ۔
آج بیتا تو کل خدا جانے
کس طرف کی چلے ہوا جانے
شدید حبس میں سمتوں کی قید کیا معنی
کسی طرف سے بھی آئے مگر ہوا آئے
زمیں پہ سائے ان کے لڑ رہے ہیں
ہوا میں جھومتے بانسوں نے دیکھا
اس آندھی میں کاٹ لے جنگل
لگنا تو ہے نام ہوا کا
دور نہیں وہ وقت بھی جب کہ
دینا ہوگا دام ہوا کا
ہوا تھی تو کشتی تھی بن بادباں
ہوئے بادباں تو ہوا کھو گئی
میں سمجھتا ہوں کہ اچھی شاعری کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ ہماری سماعتوں یا بصارتوں کے حوالے سے ہمارے اذہان کا حصہ بن جائے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ”خود گرفتہ“ میں ایسے بہت سے اشعار جگمگا رہے ہیں، جو ہمارے شعورو لاشعور کو بے ساختہ متاثر کرتے ہیں۔