اتراکھنڈ کا یونیفارم سول کوڈ-ایک جائزہ

اکتوبر 2024

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ہمارے ملک کے معماروں نے جنگ آزادی کے وقت ایک ایسے ملک کا خواب دیکھا تھا،جس میں مختلف مذاہب، تہذیبوں اور رسوم ورواج سے تعلق رکھنے والے لوگ بھائی بھائی بن کر ایک ساتھ زندگی گزاریں اور سب کو اپنے عقیدہ اور مذہب کے مطابق عمل کرنے کی گنجائش ہو۔  اسی سوچ کے ساتھ اس ملک کا دستور بنایا گیا اور دستور میں ہر گروہ کو اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت کے ساتھ زندگی گزانے کی آزادی دی گئی۔ اسی لئے ہمارے یہاں سماجی زندگی کے مختلف قوانین موجود ہیں۔ آزادی سے پہلے ہی مسلمانوں کے لئے شریعت اپلی کیشن ایکٹ بنا اور پھر 1939ء میں اس کے تکملہ کے طور پر مسلمانوں کے انفساخ نکاح کا قانون بنا۔ 1955ء میں ہندو میرج ایکٹ بنااور اس قانون کے رو سے سکھوں، جینیوں اور بودھوں کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا۔ حالاں کہ سکھ اس وقت بھی اس سے ناراض تھے اور بدھسٹوں کو بھی آج تک اس پر اعتراض ہے؛ بلکہ مسلمان عیسائی یہودی اور پارسی کے علاوہ ہر مذہب کے لوگوں پر اس قانون کو مسلط کر دیا گیا۔ اسی طرح ہندوستان میں انڈین کرسچن میرج ایکٹ 1872ء اور آنند میرج ایکٹ (The Anand Marriage Act ) 1909ء بھی موجود ہے۔ آنند میرج ایکٹ اصل میں سکھوں کی رواجی شادیوں کو قانون کے دائرہ میں لانے کے لئے بنایا گیا۔ ان سب کے علاوہ ایک خصوصی سیکولر قانون اسپیشل میرج ایکٹ (Special Marriage Act ) بھی موجود ہے۔

ہندوستان میں بعض ایسے قبائل بھی ہیں، جن کے یہاں فرسودہ بلکہ غیر انسانی روایات قائم ہیں۔ جیسے ایک عورت کی کئی مردوں سے شادی۔ یا ایک بھائی شادی کرے اور وہ تمام بھائیوں کی مشترکہ بیوی سمجھی جائے۔ ظاہر ہے کہ کسی مہذب معاشرہ کے لئے یہ بات ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اس لئے ملک کا دستور بنانے والے ایک گنجائش یونیفارم سول کوڈ کی رکھنا چاہتے تھے؛ تاکہ ایسے غیر مہذب قوانین سے عوام کو بچایا جائے۔ اس لئے دستور کے رہنما اصول میں ایک دفعہ ایسی رکھی گئی کہ ملک میں بتدریج یونیفارم سول کوڈ لانے کی کوشش کی جائے گی، اس میں نہ یکساں سول کوڈ کا لزوم ہے اور نہ اس کے لئے کوئی مدت مقرر کی گئی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت اس موضوع کو بر سر اقتدار پارٹی ایسی ا ہمیت دے رہی  ہے، گویا کہ لوگوں کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہو، اور اس کو اصل میں مسلمانوں کے خلاف اور ان کو ان کے شرعی حقوق سے محروم کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

مرکزی حکومت نے تو اب تک یکساں سول کوڈ کا کوئی خاکہ پیش نہیں کیا ہے لیکن اتراکھنڈ بی جے پی حکومت نے اس پر قانون بنا دیا ہے۔ اس قانون سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس یکساں سول کوڈ کی بات کی جا رہی ہےوہ کس طرح کا ہوگا، اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس پس منظر میں اتراکھنڈ کے قانون کے چند قابل غورنکات کا ذیل میں جائزہ لیا جا رہا ہے۔

(1)             اس قانون کے لحاظ سے بچوں کو گود لینے کی گنجائش ہوگی اور گود لئے ہوئے بچے کو حقیقی اولاد کا درجہ حاصل ہوگا۔ تمام معاملات میں وہ حقیقی بیٹے اور بیٹی کی طرح سمجھے جائیں گے۔یہ قانون صریحاََ قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لے پالک بنانے کی وجہ سے کوئی تمہارا بیٹا نہیں ہو جاتا، یہ تو محض تمہارے منھ کی باتیں ہیں (احزاب: 3)۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی خدمت، امانت ودیانت، وفاداری اور بہتر صفات کی وجہ سے اپنا منھ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ چوں کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عربوں میں بھی لے پالک بنانے کا تصور موجود تھا ۔ اس کی بنا پر صحابہ ان کو زید بن محمد کہا کرتے تھے، اور ان کو آپ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو پھر ان کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرتے ہوئے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا جانے لگا۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میرے بھائی یعنی دینی بھائی اور دوست ہو (صحیح بخاری عن البراء بن عازب، حدیث نمبر: 2699) اور اس تصور کو ختم کرنے کے لئے ان کی طلاق شدہ بیوی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نکاح فرما لیا، جس کا  تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے؛ تاکہ آپ کے عمل کے ذریعہ پوری طرح اس تصور کی تردید ہو جائے۔یہ نہ صرف شریعت کا حکم ہے؛ بلکہ یہ فطرت کا تقاضا بھی ہے۔

(2)             اس قانون کی رُو سے اگر زنا کی وجہ سے کوئی بچہ پیدا ہو تو وہ زانی کی اولاد سمجھا جائے گا اور جو حقوق جائز اولاد کے ہیں، وہی حقوق اس ناجائز بچے کے بھی ہوں گے۔ اسی طرح اگر کرایہ پر کسی عورت کی کوکھ حاصل کی گئی اور اس سے بچہ پیدا ہوا ، یا کسی اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ عورت کسی غیر مرد سے حاملہ ہوئی تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ بھی حقیقی بیٹا سمجھا جائے گا۔ میراث اور تمام معاملات میں اس کے وہی حقوق اور احکام ہوں گے جو حقیقی اولاد کے ہوتے ہیں۔

اس قانون کے دور رس اثرات پڑیں گے، اس بچہ پر اُن تمام مردوں اور عورتوں سے نکاح حرام قرار پائے گا، جن سے حقیقی اولاد کا نکاح حرام ہوتا ہے، اس کی وجہ سے جو شریعت میں اصل وارث ہیں، ان کا حصہ متأثر ہو جائے گا، مثلاََ اگر کسی کی ایک بیٹی تھی تو شرعاََ وہ آدھے ترکے کی حقدار ہوتی؛ لیکن اگر اس نے کسی لڑکے کو گود لے لیا، یا اس کا کوئی ناجائز بچہ تھا اور اس کو بیٹا مان لیا گیا تو اس ترکہ میں سے ایک چوتھائی ہی اس لڑکی کو ملے گا۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ولدالزنا کو اپنی اولاد کا درجہ دینا انسانی فطرت اور سماجی مصلحت کے خلاف ہے۔انسانی فطرت کے خلاف اس لئے کہ تمام جانداروں میں انسان ہی ایسی مخلوق ہے، جن کے لئے ہمیشہ سے نکاح کا نظام رکھا گیا ہے؛ تاکہ نسب کی شناخت باقی رہے، اگر ناجائز اولاد کو اپنی اولاد کا درجہ دیا جائے تو شناخت متأثر ہو جائے گی، اور ایک بچہ ایسے مرد کی طرف منسوب ہوگا، جو حقیقت میں اس کا باپ نہیں، اور سماجی مسائل اس لئے پیدا ہوں گے کہ اگر ولدیت کے ثبوت کے لئے اس کے والدین کے درمیان نکاح ضروری نہیں ہو تو کوئی بھی شخص کسی کی جائیداد میں دعویٰ دار بن کر کھڑا ہو سکتا ہے، اور کہہ سکتا ہے کہ فلاح شخص نے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا تھا، اس طرح جھوٹے دعوؤں کا ایک سلسلہ قائم ہو جائے گا، جن کا رد کرنا مشکل ہو جائے گا۔

زنا کا حرام ہونا تو ظاہر ہی ہے لیکن پرائی عورت کی کوکھ کرایہ میں لینا بھی زنا میں شامل ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: تمہاری بیویاں ہی تمہاری کھیتیاں ہیں؛ لہٰذا اپنی ہی کھیتی پر جس طریقہ سے آنا چاہو ،آؤ (بقرہ: 223) اس سے صاف معلوم ہوا کہ کسی دوسری عورت کو اپنی اولاد کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا؛ کیوں کہ وہ تمہاری کھیتی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی ایسے شخص کے لئے اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، حلال نہیں ہے کہ وہ دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے (سنن ابو داؤد عن رویفع بن ثابت، حدیث نمبر: 2158)۔ دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں اس کے بچہ کی پرورش ہو۔

(3)بالغ ہونا ایک فطری وارتقائی عمل ہے، جو ہر انسان بلکہ ہر جاندار کے اندر ایک عمر کے بعد وجود پذیر ہوتا ہے اور اس کی مردوں اور عورتوں میں مخصوص علامتیں ہیں۔ بالغ ہونے کے احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ خود اپنا نکاح کر سکتے ہیں، اس کے لئے ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے؛ اگرچہ نکاح کی کوئی عمر متعین نہیں ہے؛ لیکن بالغ ہونے کے بعد چوں کہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کو فطری طور پر اپنے جوڑے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور اگر نکاح کی ضرورت پڑنے کے بعد بھی نکاح میں تاخیر کی جائے تو گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ وہ جلد نکاح کر لیں؛ لیکن یہ ضروری نہیں ہے ، کیوں کہ مختلف لوگوں کے حالات الگ الگ ہوتے ہیں؛ البتہ کوئی لڑکا یا لڑکی جسمانی طور پر بالغ ہونے کے بعد اپنا نکاح کرنا چاہے تو اس کو نکاح سے روکا نہیں جا سکتا۔

اتراکھنڈ میں جو یونیفارم سول کوڈ پاس کیا گیا ہے، اس کی رو سے اٹھارہ(18) سال سے کم عمر لڑکی نابالغ تصور  کی جائے گی، اور لڑکوں کے لئے یہ عمر اکیس (21)سال کی عمر رکھی گئی ہے، اس سے پہلے اگر انھوں نے اپنا نکاح کر لیا تو یہ جرم ہے، یہ بات قرآن وحدیث کی رُو سے بھی درست نہیں ہے، اور قانون فطرت کے بھی خلاف ہے، قرآن مجید میں لڑکی کے لئے حیض آنے کو بلوغ کی ابتداء قرار دیا گیا ہے، (طلاق، آیت نمبر: 4) اور خود حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ پندرہ سال کے لڑکے کو بالغ قرار دیا گیا ہے۔

فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے اور احتلام ، انزال، حیض اور استقرار حمل کو بالغ ہونے کی علامت قرار دیا ہے، اور اگر یہ علامتیں ظاہر نہ ہوں تو پندرہ سال کی عمر کو بلوغ کا معیار مانا ہےاور شریعت میں بالغ ہونے سے پہلے بھی ولی کے ذریعہ لڑکے اور لڑکی نکاح ہو سکتا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ نابالغ مطلقہ کی عدت تین مہینہ مقرر کی گئی ہے ، (طلاق، آیت نمبر: 4) اور خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح نابالغی کی عمر میں ہوا ہے ، (مسلم، کتاب النکاح، حدیث نمبر: 1442) اسی لئے اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بلوغ سے پہلے بھی لڑکے اور لڑکی کا نکاح ہو سکتا ہے؛ البتہ یہ اس کے ولی کی اجازت سے ہوگا۔  اب اگر قانون فطرت کی رو سے ان دو نکات پر غور کیا جائے کہ بلوغ کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال ہو اور نکاح کی کم سے کم اٹھارہ یا اکیس سال  تو یہ دونوں باتیں پوری طرح عقل وفطرت کے خلاف معلوم ہوتی ہیں۔

(4)              لِیو اِن ریلیشن شِپ یعنی نکاح کے بغیر دو جوان مردو عورت کا آپسی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا اس وقت قانون کی رُو سے جواز کے دائرہ میں آگیا ہے اور وہ دونوں آپس میں جسمانی رشتہ بھی قائم کریں، اس کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ یہ اخلاق، انسانیت اور مذاہب کی مشترکہ اور مسلّمہ تعلیم کے خلاف ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ سخت گناہ ہے اور نکاح کے بغیر ایک دوسرے سے ازدواجی انداز کا رابطہ رکھنا حرام ہے۔ قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ بدکاری اور آشنائی جائز نہیں ہے۔

اس قانون کی رُو سے لیو اِن ریلیشن شپ کی بنیاد پر جو بچے پیدا ہوں گے، ان کو حقیقی بچوں کا درجہ حاصل ہوگا۔ زانی پر بچوں کے وہی حقوق واجب ہوں گے جو باپ پر بچوں کے تئیں واجب ہوتے ہیں۔ پہلے بھی بات آچکی ہے کہ شریعت کی رو سے یہ ناقابل قبول ہے۔ انسان جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ جب چاہا اور جس سے چاہا جسمانی رشتہ بنایا اور آگے بڑھ گیا۔ یہ قانون نہ صرف اسلام کے خلاف ہے بلکہ ہندوستان کی روایت اور تہذیبی قدروں کے بھی خلاف ہے۔ اگر ایسے تعلق کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچوں کو حقیقی بچوں کا درجہ دے دیا گیا تو خاندان کے لوگ بھی ان کو حقارت کی نظر سے دیکھیں گے اور آئندہ ان کے جائز رشتوں میں بھی دشواری پیش آئے گی۔ اس لئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ لیو اِن ریلیشن شپ کو غیر قانونی مانا جائے اور اس کو منع کیا جائے۔

(5)             اس قانون میں ایک بنیادی بات یہ کہی گئی ہے کہ ایک بیوی کی موجودگی میں مرد کو دوسرے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح عورت کو بھی ایک شوہر کی موجودگی میں کسی اور مرد سے نکاح کی ممانعت ہوگی……… اس کا دوسرا جز تو صحیح ہے کہ ایک عورت کے دو شوہر نہیں ہونے چاہئیں۔اس قانون کا پہلا جزء کہ مرد کو ایک بیوی کے رہتے ہوئے دوسرے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی، شرعی نقطۂ نظر سے غلط ہے اور یہ انسانی ضرورتوں سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ قرآن مجید نے مرد کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کی گنجائش رکھی ہے، جو چار کی تعداد سے آگے نہ بڑھے؛ البتہ ان سب کے درمیان عدل یعنی انصاف اور برابری ضروری ہے۔ اگر انصاف کرنے کی صلاحیت اور استطاعت نہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرنے کا حکم ہے (نساء: 3) ۔

(6)             اس قانون میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ طلاق سے پہلے عدالت مرد وعورت کو کچھ دنوں کے لئے الگ الگ رکھے اور اس کو طلاق کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے۔یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ شریعت میں طلاق کو ضرور ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے لیکن اگر کسی بنا پر طلاق دینی ہی پڑ جائے توضروری ہے کہ شوہر طلاق دینے کا اہل ہو۔ یعنی عاقل وبالغ ہو اور بیوی طلاق کی محل ہو، یعنی اس کے نکاح میں ہو۔ طلاق سے پہلے دونوں کو ایک مدت کے لئے الگ الگ رکھنا ضروری نہیں ہے۔

اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شریعت میں خود طلاق دینے سے پہلے اُن طریقوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جو رشتہ کے قائم رکھنے میں معاون ہوں تاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے۔ لیکن بعض دفعہ ایسے حالات ہوتے ہیں کہ اب مزید ایک عرصہ تک دونوں کو بحیثیت میاں بیوی ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس  میں تشدد پیدا ہوتا ہے۔ نفرت بڑھ جانے کے اندیشے ہوتے ہیں۔ اس لئے اسلام نے اس کو لازم قرار نہیں دیا۔ قرآن مجید میں ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو ایک سے دو بار طلاق دی تو اب یا تو بھلے طریقہ پر روک رکھے یا بہتر رویہ کے ساتھ چھوڑ دے (بقرہ: 229)۔ یہ قانون بعض دفعہ خود عورتوں کے لئے مشقت اور تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ بیوی شوہر سے جلد سے جلد نجات حاصل کرنا چاہتی ہو اور وہ اس کے لئے شوہر کو آمادہ کر چکی ہو تو اب مزید اس سے انتظار کرانا ایک تکلیف دہ عمل ہوگا۔ اس لئے یہ ناقابل قبول ہے۔

(7)             طلاق کو مشکل بناتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ طلاق سے پہلے ایک سال یا اس سے زیادہ کی علیحدگی ہوئی ہو اور طلاق کی عرضی داخل کرنے کی تاریخ سے پہلے چھ ماہ گزر چکے ہوں۔

یہ شرطیں بھی شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ شریعت میں طلاق واقع ہونے کے لئے زوجین کی باہمی رضامندی ضروری نہیں۔ اور نہ طلاق سے پہلے ایک سال یا اس سے کم یا زیادہ مدت کی علیحدگی ضروری ہے۔ نہ اس کے لئے عرضی داخل کرنے کے لئے چھ ماہ کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس لئے یہ شرائط اسلام کے قانونِ طلاق کے خلاف ہیں اور ا س کی کوئی عقلی بنیاد بھی نہیں ہے۔

(8)             طلاق کے بعد دوبارہ شادی کے لئے شرط عائد کی گئی ہے کہ طلاق کے خلاف کوئی اپیل نہ ہو یا اپیل کی تاریخ ختم ہوگئی ہو یا عدالت نے اس کو کالعدم قرار دے کر ختم کر دیا ہو۔ یہ اس مفروضہ پر ہے کہ شوہر کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی ہو تو شوہر بیوی سے رجوع کر سکتا ہے اور اگر ایک طلاق بائن دی ہو یا ایک یا دو طلاق دی ہو اور عدت گزر گئی ہو تو اب دونوں کی آپسی رضامندی سے نکاح ہو سکتا ہے۔ البتہ اگر شوہر نے تین الگ الگ مجلسوں میں تین بار طلاق دے دی ہو تو تمام فقہاء کے نزدیک تین طلاق واقع ہوگئی اور اگر ایک ہی ساتھ تین طلاق دے دی ہو تو جمہور فقہاء اور فقہ کے چاروں مشہور ائمہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی، صرف اہل حدیث حضرات اس کو ایک طلاق مانتے ہیں۔

شریعت میں مرد کو جو طلاق کا حق دیا گیا ہے، اس میں بڑی مصلحتیں ہیں۔ اس میں عورت کی عزت ووقار کا بھی تحفظ ہے اور یہ اس کی طرف سے تشدد کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ اگر شوہر اور بیوی میں بناؤ نہ ہو اور مرد چاہتا ہو کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے اور اس کے لئے قانون کی نظر میں کوئی گنجائش نہ ہو تو اس کے رد عمل میں تشدد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ جیسا کہ آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر وہ طلاق کے لئے عدالت سے رجوع کرے اور اس میں عورت کے کردار اور اخلاق پر انگلی اٹھائی جائے تو اس سے عورت کی سماج میں رسوائی ہوسکتی ہے۔ غرض کہ طلاق کے معامالہ میں سخت بندش عورت کی عزت ووقار کو سخت خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔

(9)             اس قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر طلاق دینے والا مرد دوبارہ اس عورت سے نکاح کرنا چاہے تو حلالہ کے بغیر دوسری شادی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ضروری وضاحت یہ ہے کہ ہر طلاق ایسی نہیں ہے کہ دوبارہ مرد وعورت کے رشتہ کے لئے حلالہ کی ضرورت پڑتی ہو۔ اگر ایک یا دو طلاق رجعی دے یا ایک طلاق بائن دے یا تین دفعہ طلاق کا لفظ کہے مگر تین کے عدد کی صراحت نہ کرے اور کہے کہ میرا مقصد ایک طلاق دینا ہی تھا، میں نے تاکید کے لئے تین کا لفظ استعمال کیا تھا، اور مفتی طلاق دیتے وقت کی صورت حال کو سامنے رکھ کر ایک طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دے تو ان تمام صورتوں میں دوبارہ نکاح کے لئے شرعا َحلالہ کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر تین طلاق واقع ہوگئی تو یہ حکم ہے کہ اب ان دونوں کے درمیان نکاح نہیں ہو سکتا۔ اگر اتفاق سے عورت کا کسی اور مرد سے نکاح ہوا اور خدا نخواستہ اس سے بھی رشتہ استوار نہیں رہ سکا اور نوبت طلاق کی آگئی ۔ پھر دونوں کو خیال ہوا کہ ہم ازدواجی رشتہ میں بندھ جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ لوگ تین طلاق دینے  میں احتیاط کریں۔ اور یہ مرد کے لئے ایک سخت سزا ہے۔ نیز یہ سمجھنا درست نہیں کہ حلالہ ایک منصوبہ بند عمل ہے کہ ایک معاہدہ کے ساتھ نکاح ہو کہ دوسرا شخص ایک شب اس عورت کے ساتھ گزارنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا۔ بلکہ یہ ایک اتفاقی بات ہے۔ عورت نے ایک پائیدار ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے نکاح کیا مگر تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے اور طلاق کی نوبت آگئی۔، پھر اتفاق ہوا کہ سابق شوہر وبیوی دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے ، جس کو حلالہ کہا جا رہا ہے، اس کی حقیقت یہی ہے۔

(10)          اتراکھنڈ کے اس قانون میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’نکاح ختم ہونے کے باوجود اُن دونوں سے پیدا ہونے والا بچہ حلال سمجھا جائے گا اور سابق شوہر سے اس بچے کا نسب ثابت ہوگا‘‘—یہ بالکل غیر منطقی بات ہے۔ شریعت کی نظر میں نکاح ختم ہونے کے بعد ازدواجی تعلق قائم کرنا بدکاری اور حرام عمل ہے۔ اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ بچہ کا نسب مرد سے ثابت نہیں ہوگا اور نہ یہ بچہ حلال سمجھا جائے گا (دیکھئے: بدائع الصنائع، کتاب الدعویٰ، المغنی لابن قدامہ، کتاب الفرائض، باب ذوی الارحام ) ۔نکاح کے بغیر جو بچہ پیدا ہو اس کو حلال بچہ قرار دینا مصلحت کے بھی خلاف ہے کیوں کہ اس سے رشتہ نکاح کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ اور ہمارا ملک جو مذہبی اور اخلاقی اقدار پر قائم ہے، وہاں بھی مغربی ملکوں کی طرح شہوت پرستی کا ماحول بن جائے گا۔ بِن باپ کے بچوں کی کثرت ہونے لگے گی۔ بھارت میں ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھسٹ اور جو دوسرے مذہبی گروہ رہتے ہیں ، ان سب کے درمیان یہ تسلیم شدہ اور مشترکہ تصور ہے کہ مرد وعورت کا وہی تعلق جائز ہے، جو نکاح پر قائم ہو۔ اگر بغیر نکاح کے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی حلال سمجھا جائے تو پھر نکاح کا تصور بے معنیٰ ہو جائے گا۔

(11)          یہ قانون کہتا ہے کہ’’ عدالت مقدمہ کے دوران یا بعد میں شوہر یا بیوی دونوں کو مستقل نان ونفقہ کا حکم دے سکتی ہے‘‘——- اسلام کے قانون نکاح کے مطابق شوہر پر بیوی کا نفقہ لازم ہے، بیوی کے ذمہ شوہر کا نفقہ لازم نہیں ہے۔ اس لئے بیوی پر نان ونفقہ کی ذمہ داری ڈالنا اسلامی شریعت کے خلاف اور عورت پر ظلم ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورتوں کا نفقہ ان کے شوہروں پر واجب ہے (مسلم عن جابر بن عبداللہ ، حدیث نمبر: 1218، باب حجۃ النبی) خود قرآن مجید میں بھی اس کی صراحت ہے، (طلاق:7)

(12)          بغیر نکاح کے باہمی رضامندی سے مردوعورت کا باہمی تعلق جس کو لِیو اِن ریلیشن شپ کہا جاتا ہے، کو درست قرار دیتے ہوئے یونیفارم سول کوڈ اتراکھنڈ کہتا ہے کہ’’ اگر اس طریقۂ زندگی میں پارٹنر نے معلق کر دیا ہو، تو عورت نفقہ کا دعویٰ کر سکتی ہے‘‘——— شریعت کے مطابق لِیو اِن ریلیشن شپ جائز رشتہ نہیں ہے اور نفقہ جائز بیوی کا واجب ہوتا ہے نہ کہ حرام کار عورت کا۔ اس لئے نکاح کے بغیر قائم ہونے والے تعلق کی وجہ سے نفقہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ قرآن وحدیث میں بیوی کا نفقہ شوہر پر واجب کیا گیا ہے نہ کہ زانیہ کا زانی پر۔

(13)          اس قانون کے لحاظ سے’’ چچازاد بہن، پھوپھی زاد بہن، خالہ زاد بہن، ماموں زاد بہن، چچا کا لڑکا، پھوپھی کا لڑکا، خالہ کا لڑکا، ماموں کا لڑکا محرم رشتہ دار ہیں ‘‘—— شریعت میں مردو عورت کے لئے جن محرم رشتہ داروں کی تفصیل بیان کی گئی ہے ان میں چچا زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد اور ماموں زاد بھائی بہن شامل نہیں ہیں۔ اس لئے یہ رشتے غیر محرم میں شامل ہیں۔ ان کو محارم میں داخل کرنا قانون شریعت میں بے جا مداخلت ہے۔ قرآن مجید میں سورۂ نساء میں تفصیل سے ان خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جو محرم ہیں (نساء: 23) ۔

غور کیا جائے تو محرم اور غیر محرم کا تعلق انسان کے یقین سے ہے۔ آدمی جس رشتہ کو حرام تصور کرتا ہے وہ اس کی طبیعت کے لئے ناقابل قبول ہوتا ہے۔ اور جس رشتہ کے حرام ہونے کا اسے یقین ہی نہ ہو، اس میں انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ ہندو سماج  میں چوں کہ محرم کا یہی قانون ہے اس لئے ان کے یہاں یہ قابل قبول ہے لیکن ہندو میریج ایکٹ کے ان قوانین کو دوسری قوموں پر نافذ کرنا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔

(14)          اس قانون میں اِن رشتہ داروں کو ترکہ میں وارث قرار دیا گیا ہے: ’’بیٹا، بیٹی، بیوی، باپ اور ماں، پوتا، پوتی، نواسا ،نواسی، بہو، پڑپوتا، پڑپوتی مرحوم بیٹے کے بیٹے کی بیوی، مرحوم نواسی کا بیٹا، مرحوم بیٹے کی بیٹی کا بیٹا، مرحوم بیٹی کے بیٹے کا بیٹا، مرحوم بیٹی کی بیٹی کی بیٹی، مرحوم بیٹے کی بیٹی کی بیٹی، مرحوم بہن کے بیٹے کی بیٹی، بھتیجا، بھانجا، بھتیجی، بھانجی، دادا، دادی، سوتیلی ماں، بھائی کی بیوی، چچا، بیوی، نانا، نانی، ماموں ، خالہ‘‘ ۔

وارثین کی جو فہرست بیان کی گی ہے، اس میں شرعی نقطۂ نظر سے صرف بیٹا، بیٹی، باپ اور ماں ہر حالت میں وارث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض افراد بعض صورتوں میں وارث بنتے ہیں، جیسے: پوتا، پوتی، پڑپوتا، پڑپوتی، بھتیجا، بھانجا، بھتیجی، بھانجی، داد، دادی، چچا، نانا، نانی، نواسا، نواسی، اور بقیہ افراد کسی بھی حالت میں وارث نہیں بنتے۔ میراث کے یہ احکام قرآن مجید میں تفصیل ووضاحت کے ساتھ بیان فرما دئیے گئے ہیں (النساء: 11)۔ اور اسی لئے ان احکام پر فقہاء قریب قریب متفق ہیں (سراجی، باب الحجب: 7)

اسلام کا قانون وراثت اس اصول پر مبنی ہے کہ جو قریب ترین رشتہ دار ہے وہ نسبتہَ دور کے رشتہ دار کو میراث کے حق سے محروم کر دے گا۔ جیسے اولاد موجود ہو تو اولاد کی اولاد کو میراث میں حق نہیں ملے گا۔ باپ ماں موجود ہوں تو والدین کے والدین کو میراث میں حق نہیں ملے گا۔ اور جو دور کے رشتہ دار ہیں وہ میراث میں حقدار نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ اگر تمام رشتہ دار وراثت میں حقدار مانے جائیں تو میراث کا حصہ اتنا کم ہو جائے گا کہ حقدار کو اس کا کما حقہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔

غرض کہ یونیفارم سول کوڈ جس انداز پر اتراکھنڈ میں مرتب اور منظور کیا گیا ہے، وہ کچھ تو ہندو رسم ورواج پر مبنی ہے، اور بعض جگہ مسلم مذہبی اقدار سے آزاد ہے، شرعی نقطۂ نظر سے یہ قطعاَ درست نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کا جو نعرہ لگایا جا رہا ہے اِس قانون کے اندر اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے، جو کسی بھی طرح مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

 

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.