آپریشن سندور: میڈیا کی سونی مانگ اور اجڑ گئی

سہیل انجم
جون 2025

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ہندوستان کی جانب سے کیے گئے ’’آپریشن سندور‘‘ نامی کارروائی کی کامیابی و ناکامی موضوع بحث ہے۔ اسی کے ساتھ ایک اور معاملہ بھی موضوع بحث ہے اور وہ ہے میڈیا کا کردار۔ حالانکہ ہندوستانی میڈیا تو ایک زمانہ ہوا بے وقعت ہو گیا ہے۔ پہلے جہاں پوری دنیا میں اسے بہ نظر استحسان دیکھا جاتا تھا وہیں اب اسے بہ نظر تحقیر دیکھا جاتا ہے۔ پہلے جب بھی ہندوستانی جمہوریت کی ستائش ہوتی تھی تو اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی میڈیا کی بھی ہوتی تھی۔ لیکن گزشتہ گیارہ برسوں سے جہاں جمہوریت کی پیشانی پر بے شمار بدنما داغ لگ گئے ہیں وہیں میڈیا کی پیشانی بھی بے اعتباری، خوشامد، اشتعال انگیزی، مذہبی منافرت اور فیک نیوز کے داغوں سے داغدار ہو گئی ہے۔ لیکن آپریشن سندور کے موقع پر اس نے جو رپورٹنگ کی اس کی وجہ سے اس کی مانگ میں جو تھوڑا بہت سندور تھا وہ بھی بالکل صاف ہو گیا اور وہ کسی سہاگن کی بجائے کسی بیوہ کی مانگ بن کر رہ گئی ہے۔

ہمیں اس کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ کس طرح میڈیا نے پاکستان کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ کراچی اور دیگر شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو گرفتار کروا دیاتھا اور وزیر اعظم شہباز شریف کو بنکر میں روپوش کرا دیا تھا۔ حالانکہ پاکستانی میڈیا بھی تقریباً یہی سب کرتا رہا لیکن اس کی فرضی رپورٹوں میں شدت کی کمی تھی۔ اس نے اتنے مقامات پر پاکستانی فوج کو قبضہ نہیں دلایا جتنے مقامات پر ہندوستانی میڈیا نے ہندوستانی فوج کو دلا دیا۔ پاکستانی میڈیا ہندوستان کے اتنے فوجی ٹھکانے تباہ نہیں کروا سکا جتنے ہندوستانی میڈیا نے پاکستانی فوجی ٹھکانوں کو تباہ کروایا۔ حد تو تب ہو گئی جب جنگ بندی کا اعلان ہو گیا اور انٹرنیشنل میڈیا حقائق کو بے نقاب کرنے لگا اور اس وقت بھی اس کا رویہ نہیں بدلا۔ دراصل جھوٹ بولنے والا جب تواتر کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، اس کا لاشعور اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور پھر لاشعوری کیفیت شعوری کیفیت بن جاتی ہے اور وہ شخص اس جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میدان میں بھی ہندوستان ایک بڑا بھائی بن کر ابھرا۔ لیکن ہمیں پاکستانی میڈیا پر اظہار خیال نہیں کرنا بلکہ ہندوستانی میڈیا پر کرنا اور اس کی بداعمالیوں پر حکومت کی خاموشی پر کرنا ہے۔

صرف گودی میڈیا ہی نے فیک نیوز کا طوفان نہیں اٹھایا بلکہ حکومت نواز سوشل میڈیا نے بھی اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کی وزارتوں نے میٹنگ کرکے اس معاملے پر تفصیلی غور خوض کیا۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے فیک نیوز کو ہٹانے کے احکامات صادر کیے گئے۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد فوج کی جانب سے پریس کانفرنسیں کی گئیں اور کسی حد تک حقائق پر روشنی ڈالی گئی لیکن اس نے بھی بہت سے سوالوں کے جواب نہیں دیے۔ حکومت کی جانب سے گودی میڈیا کے رویے پر خاموشی اختیار کی گئی۔ اس نے پہلگام حملے کے بعد پاکستان کے ڈان نیوز اورجیو نیوز جیسے یو ٹیوب چینلوں پر پابندی لگا دی۔ جس کے بعد پاکستان کی جانب سے کئی سائبر حملے کیے گئے جس کی وجہ سے ہندوستانی افواج کو الرٹ پر رہنا پڑا۔ حکومت نے یہاں کے بھی کئی سوشل میڈیا چینلوں پر پابندی لگا دی جن میں سینئر صحافیوں کے بہت زیادہ دیکھے جانے والے چینل بھی تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب اس پر احتجاج کیا گیا تو پھر پابندی ہٹا لی گئی۔ اگر ہم فیک نیوز کی بات کریں تو حکومت کے ادارے پریس انفارمیشن بیورو کے فیکٹ چیک یونٹ کے مطابق مارچ 2025 تک فیک نیوز کے 97 واقعات کی شناخت کی گئی۔ وزیر اطلاعات و نشریات اشونی ویشنو نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ 2024 میں 583، 2023 میں 257  اور 2022 میں 338 فیک نیوز پائی گئی تھیں۔ لیکن صرف 2025 میں اس سے کہیں زیادہ فیک نیوز پائی گئیں۔ اور اگر آپریشن سندور کے دوران اور اس کے فوراً بعد کے واقعات کی جانچ کی جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔

اس دوران حکومت کی ہدایت پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس نے ہندوستان کے 8000 اکاونٹس بلاک کر دیے۔ حالانکہ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ حکومت کے اس حکم کا حامی نہیں لیکن قانون کا پابند ہے۔ جن کے اکاونٹس بلاک کیے گئے ان میں مکتوب میڈیا، بی بی سی اردو، فری پریس کشمیر اور دو صحافیوں مزمل جلیل اور انورادھا بھاسن قابل ذکر ہیں۔ حکومت نے نیوز ویب سائٹ ’’دی وائر‘‘ پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ لیکن جب صحافیوں کی متعدد تنظیموں اور اداروں نے اس پر شدید احتجاج کیا تو اس نے پابندی اٹھا لی۔ لیکن اس نے فیک نیوز کے بھنڈار والے گودی میڈیا کے کسی چینل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس نے ان کو مسلسل جھوٹ پھیلانے کی آزادی دے رکھی تھی جوب بھی جاری ہے۔ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے بعد اس کی جنونی رپورٹنگ نے پورے ملک کو خوف وہراس میں مبتلا کر رکھا تھا۔ لوگ اپنے عزیزوںاور رشتے داروں کو خوف زدگی کے عالم میں فون کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں نے اندرون ملک کے اپنے اسفار منسوخ یا ملتوی کر دیے کہ پتہ نہیں کل کیا ہونے والا ہے۔ لیکن حکومت کانوں میں تیل ڈالے اور آنکھوں پر پٹی باندھے پڑی رہی۔ اس نے ان چینلوں کو قابو میں کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

دراصل یہی نیوز چینل حکومت کی سیاست کے لیے بیٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ جب سے مرکز میں موجودہ حکومت قائم ہوئی ہے نیشنل میڈیا کا تحویل قبلہ ہو گیا ہے۔ اس نے تمام صحافتی اخلاقیات کو اپنے پیروں تلے روند دیا ہے۔ میڈیا کے لیے جو اخلاقی ضابطے تشکیل دیے گئے تھے ان کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی۔ ان چینلوں کی غلط اور گمراہ کن رپورٹنگ کے خلاف عدالتوں میں جانے کتنی درخواستیں داخل کی گئیں اور عدالتوں نہ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی گودی میڈیا کو بارہا لتاڑ لگائی لیکن اس نے جیسے نہ سدھرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ موجودہ حکومت نے جو ایک فرضی قوم پرستی کی مہم چلا رکھی ہے گودی میڈیا اس مہم کا پرچم بردار بنا ہوا ہے۔ حکومت اگر خاموش بھی رہتی ہے توگودی میڈیا تیز آواز میں حکومت کا پرچار کرنے لگتا ہے۔ جو ایک خاص قسم کی ٹی وی قوم پرستی پیدا ہوئی ہے اس میں سوال پوچھنا گناہ ہے۔ اگر سوال پوچھا بھی جائے تو اپوزیشن سے نہ کہ حکومت سے۔ اس نے حکمراں جماعت بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کی خوشامد کو ہی صحافتی اخلاقات بنا دیا ہے۔

نیشنل میڈیا یا بہ الفاظ دیگر گودی میڈیا کی اس بے راہ روی اور اخلاقی پستی نے پوری دنیا میں ہندوستانی میڈیا کو بدنام کر دیا ہے۔ اس صورت حال سے سینئر صحافیوں اور زندگی بھر صحافتی اقدار کو سینے سے لگائے رکھنے والے ایڈیٹروں کے حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ چونکہ ایسے لوگوں اور تجزیہ کاروں کو نیشنل میڈیا پر جگہ نہیں دی جاتی اس لیے وہ لوگ سوشل میڈیا پر اور یو ٹیوب چینلوں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور ہندوستان میں صحافتی اخلاقات کا جنازہ نکالے جانے پر فکر مندی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن ان کی آوازیں نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی ہیں۔ ان کی باتیں سننے والا کوئی نہیں۔ ان کی فکرمندی سے فکر مند ہونے والا کوئی نہیں۔ وہ حکومت سے فریاد کرتے ہیں کہ وہ نیشنل میڈیا کو قابو میں کرے لیکن اس کے بھی کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ صورت حال مستقبل کی صحافت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو پھر ہندوستانی میڈیا کی عظمت رفتہ کبھی بھی واپس نہیں آسکتی۔

پہلگام حملے کے بعد، آپریشن سندور سے قبل اور آپریشن سندور کے بعد جس طرح نیشنل میڈیا نے ہندوستان کا سر پوری دنیا میں نیچا کیا ہے اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن اس کے باوجود حکومت اس پر کسی بھی قسم کی پابندی لگانے کو تیار نہیں ہے۔ جب بھی ان نیوز چینلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ہوتا ہے تو وہ اس بیان کے پیچھے خود کو چھپا لیتی ہے کہ وہ پریس کی آزادی کی حامی ہے۔ لیکن اس کے نزدیک اس وقت پریس کی آزادی کا جذبہ کہاں چلا جاتا ہے جب وہ سوشل میڈیا اور آزاد میڈیا اور بالخصوص میڈیا کے ان پلیٹ فارموں کے خلاف کارروائی کرتی ہے جو اس کی خوشامد نہیں کرتے۔ آج ہندوستان پریس کی آزادی کی عالمی درجہ بندی میں بہت نیچے گر گیا ہے لیکن نہ تو حکومت کو کوئی فکر ہے اور نہ ہی نیشنل میڈیا کو۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.