آپریشن سندور اور بھارت کی ناکام خارجہ پالیسی

عبدالباری مسعود
جون 2025

 

 

 

 

پاکستان کے خلاف آپریشن سندور اپنے اہداف میں کہاں تک کامیاب ہوا، یہ بحث کا موضوع ہے لیکن اس نے  ملک کی خارجہ پالیسی کو پوری طرح بے نقاب کردیا جو کسی  المیہ سے کم نہیں۔ ایک عرصہ سے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں انڈیا کے وشو گرو  بننے کا آوازہ  ہر سو سنائی دیتا تھا مگر جب  پہلگام دہشت گردانہ حملہ ہوا اور اس کے جواب میں  انڈیا نے فوجی کارروائی کی تو وہ اس حوالے سے پوری دنیا میں یک و تنہا نظر آیا ۔  اس پر مزید ستم ظریفی  یہ کہ ( مودی کے )  ’’مائی ڈیئر  فرینڈ ‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ  نے دست شفقت کے بجائے دست درازی کا سلسلہ شروع کردیا۔  چنانچہ  مرتا  کیا نہ کرتا کے مصداق  دنیا کے 33 ملکوں میں سات وفود روانہ کرنا پڑے۔

یہ بات ریکارڈ پر  ہے کہ وزیراعظم نے وشو گرو بننے کی تمنا  میں گزشتہ 11 سالوں میں   89 بیرونی اسفار  کئے،   جن میں 72ممالک شامل ہیں۔ اس پر عوام کے خزانہ  سے 234کروڑ روپے  صرف ہوئے۔   ان کے  دورہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ  وہ ہر غیر ملکی سربراہ سے بڑے پر تپاک انداز میں  بغلگیر ہوتے جسے Hug  Diplomacy یا Hug-lo-macyکا نام دیا گیا۔ نیز وہ  ہر ملک میں جابسے  ہندنژاد شہریوں کا ایک اجتماع بھی منعقد کرتے۔

اسی طرح وزیر خارجہ  جے ایس جئے شنکر بھی بارہا  یہ دعوی کرچکے کہ انڈیا کی خارجہ پالیسی کی سب  سے بڑی کامیابی یہ  ہے کہ آج  وہ ’وشوا متر‘ بن گیا ہے  یعنی  وہ  دنیا کے تمام  ملکوں کا دوست ہے اور  دنیا کا ہر ملک  اس سے دوستی اور رشتے قائم کرنا چاہتا ہے۔ اب اس دعوی کا  آپریشن سندور  کے تناظر میں جائزہ لیا جائے  کہ کتنے  ممالک اس  نازک موقع پر انڈیا کی حمایت میں سامنے آئے۔

گو دنیا کے تمام  اہم اور طاقتور ملکوں نے پہلگام دہشت گردانہ کاروائی پر  بیانات جاری کئے جو عمومی نوعیت کے تھے۔ جس میں  دہشت گردی کی مذمت کے  ساتھ کہا گیا کہ ہاں اس  سے نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے۔ مگر پاکستان کی باضابطہ  مذمت کسی نے بھی نہیں کی، الٹے  انہوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے پر  زور د یا۔  ان  ملکوں کی فہرست میں   امریکہ   اور  گلوبل نارتھ مما لک  ( Global North Nations)     یعنی ترقی یافتہ اور دولتمند  مما لک  ( جو شمالی امریکہ ، یوروپ  اور مشرقی ایشیاء کے بعض ممالک جیسے جاپان ، جنوبی کوریا وغیرہ)، نیز  جی سیون(Group 7)،  G-20 , QUA، برکس (BRICS)،  سارک اور    The Bay of Bengal Initiative for Multi-Sectoral Technical and Economic Cooperation (BIMSTEC)  وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں کسی عالمی انجمن نے انڈیا کی حمایت میں بیان جاری نہیں کیا۔ دنیا کی  بڑی معیشتوں کی انجمنیں یعنی جی سیون  میں نئی دہلی کو  مشاہد کا  درجہ حاصل ہے، جس  پر وہ نازاں ہے  نیز جی ٹوئنٹی نے بھی کوئی حمایت نہیں کی۔ اسی طرح  BIMSTEC  جس کی بنیاد خود ہمارے ملک نے ڈالی اس کا بھی کوئی رکن ملک سامنے نہیں آیا۔  جہاں تک برکس کا معاملہ ہے  جس کے بنیاد گزاروں میں انڈیا شامل ہے، اس کے رکن ممالک جیسے جنوبی افریقہ، اور  برازیل  رسمی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ چین کے ساتھ پہلے سے تنازعات چلے آرہے ہیں تو اس کی طرف سے کسی حمایت کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس اس نے  یہ بیان دیا کہ وہ  پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ بالخصوص روس سے کوئی حمایت نہ ملنے کا معاملہ  تشویش کا باعث ہے، گزشتہ ستر برسوں سے وہ ہر معاملہ میں انڈیا کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔  پاکستان کے ساتھ ہر جنگ اور مسئلہ میں اس نے نئی دہلی کا ساتھ دیا ہے  تاہم اس مرتبہ  اس نے  دونوں ہمسایوں کے درمیان ایک توازن برقرار رکھا۔ حالانکہ  نئی دہلی روسی اسلحہ کا  سب سے بڑا خریدار ہے۔

دفاعی تجزیہ کار اور دفاعی میگزین  فورس کے ایڈیٹر پروین ساہنی  کے بقول روس پاکستان سے بھی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ صرف اسرائیل  اور افغانستان نے ہی بھارت کی حمایت کی ۔ طالبان کی حکومت کو نئی دہلی نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی اور ملک نے۔ جہاں تک  اسرائیل  کا معاملہ ہے وہ ظاہر ہے پاکستان کے مقابلے بھارت کی ہی حمایت کرے گا۔ خارجہ پالیسی کی ناکامی کا تجزیہ کرتے ہوئے ساہنی مزید  کہتے ہیں کہ یہ سب کو معلوم ہے چین پاکستان کا سب سے بڑا دوست ہے اور وہ اسلام  آباد کو  مزید اسلحہ، ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر  کی شکل میں دے گا۔ مزیدبرآں  چین نے ایسے  وقت ارونا چل کے  مزید 27مقامات کے نام تبدیل کردیئے، جب کہ پاکستان سے کشیدگی جاری تھی۔ ارونا چل ہماری ریاست ہے  اب تک  بیجنگ  90مقامات کے نام تبدیل کرچکا ہے۔ چین کی اس حرکت کو سنجیدگی لیا جانا چاہیے۔ تاہم مودی حکومت  چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

جہاں تک  امریکہ  سے  حمایت نہ ملنے کا معاملہ ہے وہ  سنگین نوعیت کا ہے کیونکہ حالیہ عرصہ میں دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک نوعیت کے تعلقات بہت گہرے ہوئے ہیں ۔ خود وزیراعظم مودی  برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک واشنگٹن کے دس دورے کرچکے ہیں۔  وہ  صدر ٹرمپ کے لئے امریکہ میں  انتخابی مہم بھی چلا چکے ہیں اور ٹرمپ کو ’ مائی ڈیئر فرینڈ‘ کہتے نہیں تھکتے۔ اس بارے میں  ساہنی کہتے ہیں کہ  امریکہ کی حمایت کے بغیر  پاکستان کو  2.34بلین ڈالر کا قرضہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( IMF) سے نہیں مل سکتا تھا۔ اور وہ ایسے وقت میں دیا گیا جب دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی بام عروج پر تھی۔ اب مودی حکومت نے  مشن 500   کا ارادہ  کیا ہے جس کا مقصد امریکہ کے ساتھ تجارتی مالیت کا حجم سال 2030تک   200بلین  ڈالر سے بڑھاکر 500بلین کرنا ہے۔

موجودہ کشیدگی کے دوران میں چین کی طرح  ترکی  اور آذربائیجان بھی کھل کر پاکستان کی حمایت میں سامنے آئے ۔ ترکی نے ہارڈ ویئر ڈرون کی شکل میں اسلام آباد بھیجے۔ ساہنی  کہتے ہیں کہ ان سارے نکات کا خلاصہ یہ ہے کہ آپریشن سندور کے نتیجہ میں پاکستان کو دنیا بھر میں یک و تنہا کرنے کی بھارت کی سعی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی۔

کانگریس کے ترجمان  پون کھیڑا نے بھی مودی  پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو الگ تھلگ کرنے گئے تھے خود ہی الگ تھلگ

پڑگئے۔  یہاں تک کہ نیپال اور بھوٹان جیسے چھوٹے ہمسایہ ملک بھی ہمارے ساتھ نہیں آئے ۔

اسی طرح  دی ہندو کے  سفارتی امور کی ایڈیٹر  سوہاسنی حیدر بھی اس خیال کی تائید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ  ”تمام عالمی رہنما جنہوں نے ہندوستان اور پاکستان سے بات کی، ان کی پوری توجہ کشیدگی کو کم کرنے پر تھی نہ کہ دہشت گردی پر۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ اس کا موازنہ پاکستان سے نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کو  پاکستان کی صف رکھا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انڈیا کے ساتھ امریکہ  سے  تجارت کی مالیت  140 بلین ڈالر اور پاکستان کے ساتھ تقریباً 10 بلین ڈالر ہے، پھر بھی ٹرمپ نے دونوں ممالک کو ایک ہی درجہ  پر رکھا۔”

ملک کے بیشتر  سابق سفارت کار  اور مبصرین  اس بات سے نالاں ہیں کہ پھر سے دنیا نے نئی دہلی اور اسلام آباد کو ایک چشمہ سے دیکھنا  شروع کردیاہے۔ جبکہ صدر کلنٹن کے  زمانہ میں واشنگٹن  دونوں ہمسایہ ملکوں  میں فاصلہ یا  dehyphenation  رکھتا تھا  لیکن اب  دوبارہ  انڈیا کا ذکر پاکستان کے ساتھ کرنے لگا ہے  یعنی برابری  hyphenation  کا دور لوٹ آیا ہے۔

اس بابت ساہنی کی رائے ہے کہ  یہ کوئی تشویش کا امر نہیں  جیسا کہ بیشتر سابق سفا رت کار اور مباحثوں  میں  اس کا ذکر ہورہا ہے۔  یہ صرف کشیدگی کے حوالے سے ہے  معیشت کے حوالے سے  دونوں ملکوں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے ۔ انڈ یا ایک بڑی معیشت ہے۔ جہاں تک فوجی قوت کا تعلق ہے، میں ایک عرصہ سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ  دونوں  ہمسایہ برابری کی حیثیت میں ہیں،  اس لئے  لوگوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیئے ۔ برابری کے بارے میں سوچ اب ازکار رفتہ ہوچکی ہے کیونکہ دنیا آج بدل گئی ہے۔ اس استعماری نفسیات  سے باہر نکلنا چاہیے آج ہر ملک مساویانہ درجہ چاہتاہے، چاہئے وہ کتنا ہی چھو ٹا ملک کیوں نہ ہو۔

پاکستان ایک عرصہ سے  مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی مسئلہ  بنانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ انڈیا  اسے ہر قیمت پر روکنا چاہتا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ  پاکستان اس بار مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بار بار کسی غیر جانبدار مقام پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ساہنی  کہتے ہیںکہ جموں و کشمیر کو  آ رٹیکل 370اور 35A سے  محروم کرنے  اور لداخ کو مرکزی علاقہ  بنانے کے فیصلہ سے  چین کو بھی اس میں اپنا دعوی ٹھونکنے کا موقع مل گیاہے۔  علاوہ ازیں  وہ  دہشت گردی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ اب کوئی عالمی مسئلہ نہیں رہا۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے  اسے اہم مسئلہ بنادیا تھا مگر اب یہ پس پشت چلا گیا ہے۔ ساہنی  کے مطابق مودی کا یہ کہنا غلط ہے کہ جنگ کا دور اب ختم ہوچکا ہے اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔  فی زمانہ  دہشت گردی  کے مسئلہ کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ یہی معاملہ آپریشن  سندور کے ساتھ پیش آیا۔  جئے شنکر کے اس بیان کو کہ انڈیا نے پاکستان کو آپریشن سندور کی قبل از اطلاع دی تھی ساہنی نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا  جس پر اپوزیشن اور مختلف حلقوں کی طرف سے زبردست تنقید ہو رہی ہے۔

خارجہ پالیسی کی  ناکامی پر  سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا کہتے ہیں کہ  وزیراعظم نے دنیا بھر کی  سیر کرنے میں جتنا  وقت لگایا، جتنا  پیسہ خرچ کیا وہ آج سب اکارت چلا گیا۔  مودی کو اپنے مہان ہونے کا زعم تھا کہ وہ اتنے مہان ہیں کہ جس سربراہ حکومت کو گلے لگائیں گے وہ ان کا  مرید بن جائے گا۔ اس خام خیالی کے بارے میں اگر کوئی شک تھا تو وہ شک اب دور ہوگیا ہے۔ مودی نے  امور خارجہ اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے اور  جئے شنکر  کی حیثیت محض ایک سیکریٹری سے زیادہ کی نہ تھی۔  سنہا کہتے ہیں کہ  مودی کی اب یہ حالت ہے کہ وہ امریکہ یا ٹرمپ کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ حالانکہ ٹرمپ کے بیانات سے  ملک کی خود مختاری  پر آنچ آرہی ہے تاہم مودی نے اپنے 22 منٹ کے خطاب میں ٹرمپ کے دعووں پر معنی خیز سکوت اختیار کیا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے  مودی حکومت  پر سخت حملے ہورہے ہیں جو کہ آگے مزید تیز تند ہوسکتے ہیں۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ اب ہماری خارجہ پالیسی کا یہ حال ہوچکا ہے کہ گزشتہ ایک مہینہ سے  ہر روز یہی کچھ سننے کو مل رہا ہے۔ کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے اور ہم ایک لفظ بھی نہیں بول سکے۔ اس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ اب کویت نے پاکستان پر سے ویزے کی پابندیاں ختم کر دی ہیں، جہاں کی لیبر فورس 21 فیصد ہندوستانی ہے۔اسی طرح متحدہ عرب امارات نے  پاکستانیوں کو بھی 5 سال کے ویزے کی اجازت دیدی ہے۔ بحران کے وقت تو نیپال اور بھوٹان نے بھی کچھ نہیں کہا۔ کسی ایک ملک نے بھی پاکستان کو دہشت گرد ریاست نہیں کہا۔ ہم اکیلے بولتے رہے، کسی نے ہم سے اتفاق نہیں کیا… یہ خارجہ پالیسی کی کمزوری نہیں تو اور کیا ہے؟ ان کی جماعت کی رکن پارلیمان  پرنیتی شندے  کا الزام ہے کہ آپریشن سندور کے بعد وزیر اعظم مودی کی پوری توجہ اپنی  تشہیر اور خود کی تعریف پر مرکوز رہی، احتساب پر نہیں۔ ملک کے عوام جواب چاہتے ہیں دکھاوا ( شو آف )نہیں۔ کہتے ہیں نا کہ جب شامت آتی ہے تو سب طرف سے آتی ہے کچھ ایسا ہی منظر نامہ سامنے آرہا ہے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.