آسام میں شہریت کے سوال پر سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

امیداور مایوسی کے بادل اب بھی چھائے ہوئے ہیں

نور اللہ جاوید
نومبر 2024
supreme court

آسام میں شہریت کا تنازع کوئی نیا نہیں ہے۔ لاکھوں افراد کے سروں پر شہریت کی تلوار برسہائے برس سے لٹکی ہوئی ہے۔شہریت کے اسی سوال پر نیلی میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ایک لمحے میں ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنادیاگیا ۔نیلی میں جان بچانے کیلئے ندی اور تالاب میں کود کر جان دینے والی کی کہانیاں اوراس کے تصور سے روح آج بھی کانپ جاتی ہے۔ مگرشہریت اور باہری کے نام پرنفرت اور دشمنی کا کھیل اب بھی جاری ہے۔تاہم گزشتہ مہینے کے آخری عشرے میں سپریم کور ٹ نے شہریت قانون کی دفعہ 6Aکے آئینی جواز پر جو فیصلہ سنایا ہے کہ اس نے آسام کے لاکھوں افرادکے چہروں پر امیدوں اور اطمینان کی تازہ لہر دوڑا دی ہے۔اب یہ امید جاگی ہے کہ شہریت کے سوال پر سیاست کا کھیل ختم ہوجائے گا ۔ سالوں سے ٹھوکریں کھانے کے بعد این آر سی میں جگہ پانے کے بعد بھی سازش رچی جارہی تھی کہ این آر سی میں جگہ پانے والے لاکھوں افراد کی شہریت کو مشکوک کردیا جائے۔

1984میں سابق وزیر اعظم راجیوگاندھی کی قیادت والی مرکزی حکومت اور آسام طلبہ  یونین جس میں سابق وزیر اعلیٰ پرفل کمار مہنت بھی شامل تھےکے درمیان معاہدہ ہوا جس میں  25مارچ1 197سے قبل تک آسام میں آنے والے ہر ایک شخص کو بھارت کا شہری تصور کیا جانے کا اعلان کیا گیا تھا ۔اس کو شہریت کے قانون میں تبدیل کرکے 6Aکے تحت درج کیا گیا۔تین دہائی بعد2012میں  اس معاہدہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس کو آسام کے ساتھ زیادتی اور عدم مساوات قرار دیتے ہوئے عدالت کے سامنے سوال رکھا گیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شہریت کا قانون ملک کے دیگر علاقوں کیلئے کچھ اور ہو اور آسام کیلئے کچھ اور ہو ۔ اس کے علاوہ یہ بھی دلیل دی گئی آسام کے اصل باشندوں کی تہذیب و ثقافت اور کلچر کو اس قانون کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ دفعہ 6A  آئین کے آرٹیکل 14 (مساوات)، 21 (زندگی اور آزادی) اور 29 (ثقافتی حقوق کا تحفظ) کے تحت ضمانت یافتہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔عرضی گزاروں نے سیکشن 6A کی قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ کی اہلیت کو چیلنج کرتے ہوئے سوال رکھا کہ بھارت کی شہریت کیلئے ملک میں جو کٹ آف تاریخ متعین کی گئی ہےیہ اس کے یہ خلاف ہے۔درخواست گزاروں نے یہ بھی دلیل دی کہ یہ شق جمہوری اقدار، وفاقیت اور قانون کی حکمرانی کو ختم کرتی ہے، جب کہ یہ سب آئین کے بنیادی ڈھانچے کے بنیادی اجزاء ہیں۔ان دلائل کی بنیاد پر درخواست گزاروں نے کئی حل پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت آئین ہند کی دفعہ 14، 21 اور 29 کی خلاف ورزی کرنے پر سیکشن 6A کو غیر آئینی قرار دیا جائے ۔اس کے ساتھ ہی یہ مشورہ بھی دیا کہ 1951کے بعد آسام میں آنے والے بنگلہ دیشی تارکین وطن کو آباد کرنے کیلئے ریاستوں سے مشورہ کرکے ایک پالیسی مرتب کی جائے ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بنگلہ دیش سے مختلف اوقات میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہےتاہم یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد بنگلہ دیش سے بنگالی مسلمانوں کی آمد کی شرح انتہائی کم رہی ہے۔حکومتوں کے تمام دعوؤں کے باوجود این آر سی کے باہر رہ جانے والے بنگالی مسلمانوں کی شرح انتہائی کم رہی ہے۔جن لوگوں کے نام این آر سی میں شامل نہیں ہوسکے ہیں ان میں اکثریت ا ن مسلمانوں کی ہیں جن کے دستاویز کو تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے رد کردیا گیا ۔ان کے پاس فارن ٹریبونل اور اعلیٰ عدالتوں کے سامنے شہریت ثابت کرنے کے مواقع ہیں ۔چناں چہ دفعہ 6Aکی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے پیچھے بھی یہی مقصد کارفرما تھا کہ شہریت کیلئے 1951کی حد کوباقی رکھ کرمسلمانو ں کےسروں پر شہریت کی تلوار لٹکادی جائے۔

تاہم رخصت پذیر چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے 4-1سے اس عرضی کو مستردکرکے ایک بڑے فتنے کو ٹال دیا ہے۔اگر یہ فیصلہ دفعہ 6Aکے خلاف آتا تو آسام میں بحران پیدا ہوسکتا تھا اور اس بحران کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہوتے کیوں کہ غیر مسلموں کی شہریت کیلئے شہریت ترمیمی ایکٹ موجود ہے۔جسٹس پاردی والا نے دفعہ6Aکی آئینی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تاہم بقیہ چار ججوں بشمول چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے گرچہ درخواست کو مسترد کردیا لیکن چندر چوڑ نے اپنا فیصلہ الگ لکھا ۔جب کہ  جسٹس سوریہ کانت، جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس منوج مشرانےایک فیصلہ لکھا ۔ان دونوں فیصلوں میں جو نکتے اٹھائے گئے ہیں وہ آسامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے سوال کو انسانیت اور بین الاقوامی معاہدوں سے بالا بناکر پیش کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ کسی طبقے کی شہریت ملنے سے کسی دوسرے کے حقوق متاثر نہیں ہوتے ہیں ۔تاہم اس فیصلے کے کچھ ایسے بھی نکات بھی ہیں جو  امیدوں کے ساتھ خطروں کی گھنٹی بھی بجاتے ہیں۔فیصلے میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ 25مارچ 1971کےبعد آسام میں آنے والے تارکین وطن کی شناخت کی جائے اور انہیں ملک بدر کیا جائے۔ ساتھ میں اس پورے عمل کی نگرانی عدالت کے ذریعہ کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ آسام میں کیسے نافذ کیا جائے گا۔گرچہ سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے آئینی جواز پرکوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔مگر اس ایکٹ کے ذریعہ صرف بنگالی ہندؤں کو شہریت دینے کی چور دروازے سے کوشش کی گئی ہے اس پر سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر تالا لگادیا ہے کہ مارچ 1971کے بعد آنے والے تارکین وطن کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

آزادی سے قبل اور تقسیم کے بعدآسام نے بنگالی ہندوؤں اور مسلمانوں کی ہجرت کی کئی لہر دیکھا ہے۔ آسامی قوم پرستی کے حامیوں نے مذہب سے قطع نظر  تارکین وطن کو ریاست کی ثقافت اور وسائل کے لئے خطرہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے تحریک شروع کی ۔غیر آسامیوں کے خلاف کئی سالوں تک تحریک چلائی گئی ۔سیکڑوں افراد کی جانیں گئیں اور اسی مہم کے دوران نیلی قتل عام کا واقعہ پیش آیا۔جس میں قبائلی آبادیوں نے مسلم بستیوں پر حملہ کردیا اور ایک دن میں دوہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔طویل احتجاج اور تشدد کے بعد1985میں آسام معاہدہ ہوا جس میں سیکشن 6 اے کو شہریت کے قانون میں شامل کیا گیا تھا۔ اس معاہدے پر ہندوستانی حکومت اور آسامی قوم پرست رہنماؤں کے مابین دستخط ہوئے جنہوں نے بنگلہ دیش سے “غیر قانونی امیگریشن” کے خلاف چھ سال طویل تحریک کی قیادت کی تھی۔اس معاہدے کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ ہندوستانی شہریت  کے دروازے ان تارکین وطن پر بند کردئے گئے جو 25 مارچ 1971 کے بعد آسام آئے تھے۔لیکن 2019 میں  نریندر مودی حکومت نے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ منظور کیا ، جس نے شہریت دینے کی شرائط کو یکسر تبدیل کردیا۔قانون کے تحت بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے غیر دستاویزی تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت کے لئے راہ ہموار کردی گئی ، بشرطیکہ وہ 31 دسمبر 2014 سے پہلے ہی ملک میں داخل ہوگئے۔ تاہم اس ایکٹ کے فوائد سے مسلمانوں کو محروم کیا گیا ۔شہریت ترمیمی ایکٹ ملک کا یہ قانون مذہبی تفریق کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔یہ سوال الگ ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے مسلمانوں کی شرح کیا ہے۔کیا حکومت کے پاس ایسی سروے رپورٹ نہیں ہے جس میں حتمی تعداد کی نشاندہی کرسکے ۔تاہم بنگلہ دیشی دراندازی کے نام پر سیاست کا کھیل جارہی ہے۔

آسام معاہدہ کے تحت جن کےوالدین یا دادادادی 1966 سے قبل آسام میں تھے تو وہ شہری سمجھے جائیں گے۔ اگرآباؤ اجداد 1966 سے 24 مارچ 1971 کے درمیان آسام آئے ہیں تو ، وہ سیکشن  6 اے کے تحت شہریت کیلئے درخواست دے سکتے ہیں ۔اگر کوئی یہ ثابت کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے تو اس کو غیر قانونی تارکین وطن سمجھا جائے گا۔تاہم شہری ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ بنگالی ہندو کو راحت دینے کی کوشش کی گئی مگر آسام کی پیچیدہ سیاست میں یہ ایکٹ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہورہا ہے۔یہ ایکٹ نافذ ہونے کے بعد سے اب تک شہریت کیلئے چند ہی درخواست جمع کی گئی ہے جس میں صرف ایک بنگالی ہندو کو شہریت ملی ہے۔اخباری رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگ شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت مطلوبہ دستاویزات تیار نہیں کرسکتے ہیں۔شمال مشرق میں بنگالی ہندوؤں کے لئے ایک اور پیچیدگی اس حقیقت سے پیدا ہوتی ہے کہ سی اے اے چھٹے شیڈول والے علاقوں میں نافذ نہیں ہوتا ہے۔چھٹے شیڈول کے تحت وہ علاقے ہیں جہاں داخلہ کیلئے اندرونی پرمٹ کی ضرور ت ہوتی ہے۔چھٹے شیڈول میں آسام ، میگھالیہ ، میزورم اور تریپورہ کے کچھ قبائلی علاقے شامل ہیں۔ اندرونی لائن پرمٹ ایک ایسی سفری دستاویز ہے جو دیگر ریاستوں کے ہندوستانی شہریوں کو اروناچل پردیش ، ناگالینڈ ، میزورم اور میں رہنے کے لئے درکار ہے۔

آسام کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے پولیٹیکل سائنس کے ماہرین کی رائے یہ  ہےکہ یہ فیصلہ 1971 کے بعد ریاست میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی ہجرت کے مفروضے میں’’تنگ وژن کی عکاسی کرتا ہے۔ایڈووکیٹ امان ودود کہتے ہیں کہ “1971 کے بعد بڑے پیمانے پر ہجرت کو ثابت کرنے کے لئے قطعی طور پر کوئی تجرباتی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔سپریم کورٹ کی نگرانی میں 2015سے 2019کے درمیان تارکین وطن کا پتہ لگانے کیلئے این آر سی مکمل کیاگیا ۔حتمی این آر سی نے صرف 19 لاکھ افراد کو خارج کردیا۔تاہم ان تمام افراد کو ابھی غیر ملکی قرار نہیں دیا گیا ہے انہیں فارن ٹربیونل میں اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع فراہم دیا جائے گا۔امن ودود کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ خدشہ ہے کہ غیر ملکی تارکین وطن کی شناخت کے نام پر مسلمانوں کیلئے تباہ کن حالات پیدا کئے جاسکتے ہیں۔آسام حکومت جو پہلے ہی خود کو مسلم دشمن پالیسی کی علمبردار ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی ہے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مزید کریک ڈاؤن کرسکتی ہے۔انہیں حراستی کیمپوں میں بھیجا جاسکتا ہے۔تارکین وطن کی شناخت کے عمل میں حکومت کی امتیازی پالیسی ہے۔جولائی میں بارڈر پولس کو ہدایت دی گئی ہے کہ غیر مسلم تارکین وطن کو فارن ٹربیونل کے حوالے نہیں کیا جائے ۔اس کا مطلب واضح ہے کہ صرف مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ماہرین نے جن خدشات کا اظہار کیاتھا وہ اب حقیقت میں بدل رہے ہیں ۔حالیہ دنوں میں آسام سے جوخبر آرہی ہے کہ کہ بڑے پیمانے پر تارکین وطن حراستی کیمپوں میں بھیجے جارہے ہیں ۔

لہذا ٓسام میں آباد مسلمانوں کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا ہے ۔6لاکھ مسلمانوں پر شہریت کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ایک طرف انہیں شہریت ثابت کرنے کیلئے عدالتوں میں خوار ہونا ہے تو دوسری طرف حراستی کیمپوں میں بے بسی اور بے کسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ٹریبونل اور عدالت میں خواری کا عمل اس قدر سخت دشواراور جان لیوا ہے کہ بسا اوقات زندگی ختم ہونے کے بعد شہریت کا پروانہ ملتا ہے۔کسی نے یہ سچ کہا ہے کہ سیاست دانوں کے سینوں میں دل نہیں ہوتے ہیں بلکہ دل کے نام پر وہ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں۔ وہ دماغ سے سوچتے ہیں اور دماغ سے ہی فیصلہ کرتے ہیں ۔چناں چہ سیاسی نفع و نقصان کی خاطر آسام میں جاری بحران کا انسانی حل نکالنے کی کوشش نہیں ہورہی ہے ۔یہاں سوال ہندو یا مسلمان  کا نہیں ہے۔کیوں کہ 13لاکھ ہندو بنگالی جنہیں این آر سی میں جگہ نہیں ملی ہے کیا وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت شہریت کیلئے یہ اقرار کریں گے وہ بنگلہ دیش سے بھارت میں آئے ہیں ۔ان کے پاس بنگلہ دیش کی شہریت کی کوئی دستاویز ہے؟ظاہر ہے کہ بنگالی ہندو بھی اسی کرب سے گزررہے ہیں ۔بس سیاست داں ہیں جو ان تارکین وطن کو ہندو اور مسلمان کے نام پر تقسیم کررہے ہیں ۔حقیقت تو یہی ہے کہ آسامیوں کے دلوں میں نفرت یکساں ہے۔ وہ بنگالی ہندو اور مسلمانوں دونوں کو یکساں طور غیر تصور کرتے ہیں ۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.