دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے جیل سے باہر آنے کے بعد جب اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا تو عوامی حلقوں میں تھوڑی بہت حیرت کا اظہار کیا گیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ جب جیل میں تھے تو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے اور اب جب باہر آگئے تو استعفیٰ کا اعلان کر دیا، آخر کیوں۔ لیکن جب انہوں نے دو روز کے بعد آتشی سنگھ کو دہلی کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا تو کسی کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم منیش سسودیا کے جیل جانے کے بعد ان کی ذمہ داری بھی وہی نبھا رہی تھیں۔ ان کے جیل سے باہر آنے کے بعد بھی انہی کے پاس ذمہ داری رہی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد وزارتوں کی ذمہ داریاں بھی انہی کےکاندھوں پر رہیں۔ کیجری وال جیل کے اندر سے جو بھی خطوط لکھتے وہ آتشی ہی کے نام ہوتے۔ انھوں نے پندرہ اگست کو پرچم کشائی کے لیے انہی کا نام لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) کے پاس بھیجا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہانہوں نے ان کی یہ درخواست نامنظور کر دی تھی۔
سیاسی و صحافتی حلقوں میں ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ کیجری وال سسودیا کے بعد سب سے زیادہ آتشی پر ہی اعتماد کرتے ہیں۔ آتشی نے بھی جس طرح اپنی قابلیت و صلاحیت کا مظاہرہ کیا اس نے اس اعتماد کو اور مضبوط کر دیا۔ حالاں کہ جب وہ پہلی بار جیل گئے تھے تو ان کی اہلیہ سنیتا کیجری وال عوامی و سیاسی طور پر بہت زیادہ سرگرم ہو گئی تھیں۔ اس وقت ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ ممکن ہے کہ کیجری وال لالو پرساد یادو کی طرح اپنی اہلیہ کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیں گے۔ لیکن پھر سنیتا نے اپنی سرگرمیاں کم کر دیں بلکہ ایک طرح سے ٹھپ کر دیں۔ ممکن ہے کہ انھوں نے ایسا کیجری وال کی ہدایت پر کیا ہو۔ بہرحال آتشی سنگھ دہلی کی تیسری خاتون وزیر اعلیٰ بن گئی ہیں۔ ویسے اس وقت ملک میں صرف دو خاتون وزرائے اعلیٰ ہیں۔ ان سے پہلے ممتا بنرجی مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہیں۔ آتشی سے پہلے بی جے پی کی سشما سوراج اور کانگریس کی شیلا دیکشت دہلی کی خاتون وزیر اعلیٰ رہی ہیں۔ سشما سوراج کی مدت بہت کم رہی۔ وہ صرف 13 اکتوبر 1998 سے تین دسمبر 1998 تک ہی اس عہدے پر رہ پائی تھیں۔ جب کہ شیلا دیکشت نے پندرہ سال تک دہلی پر حکومت کی۔ وہ سشما سوارج کے بعد یعنی 1998 سے 2013 تک مسلسل دہلی کی وزیر اعلیٰ رہیں۔
آتشی وزیر اعلیٰ مقرر کیے جانے سے قبل حکومت میں تعلیم، پی ڈبلیو ڈی، سیاحت، ثقافت، پانی اور بجلی سمیت 14 کلیدی محکموں کی ذمہ دار تھیں۔ انہوں نے 2013 میں پارٹی جوائن کی تھی۔ وہ دہلی کے کالکا جی اسمبلی حلقے سے ایم ایل اے ہیں۔ قبل ازیں 2019 میں انہوں نے پارلیمنٹ کا الیکشن لڑا تھا اورکرکڑ اور بی جے پی امیدوار گوتم گمبھیر سے چار لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست کھا گئی تھیں۔ وہ پارٹی کی اعلیٰ فیصلہ ساز باڈی پولیٹیکل افیئرس کمیٹی کی ممبر ہیں۔ وہ 2018 میں اس وقت کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم منیش سسودیا کی مشیر تھیں اور ایسا سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 2020 میں انہوں نے اسمبلی الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئیں۔ انھیں منیش سسودیا اور ستیند رجین کے استعفیٰ دینے کے بعد 2023 میں وزیر بنایا گیا۔ آتشی 47 سال کی ہیں۔ ان کا تعلق دہلی سے ہے۔ انھوں نے دہلی ہی میں ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کیا۔ وہ شروع میں سیاست میں آنا نہیں چاہتی تھیں بلکہ سیاست سے باہر رہ کر دیہی اصلاح کی مہم چلانے کی خواہش مند تھیں۔ اس کے لیے انہوں نے مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں چھ ماہ گزارے بھی تھے۔ لیکن بہرحال وہ پھر سیاست میں آگئیں۔ حکومت میں وزیر بنائے جانے کے بعد انہوں نے اپنی ایک شناخت قائم کی اور ایک طرح سے کیجری وال کا دایاں بازو بن گئیں۔ انہوں نے جتنی کم مدت میں سیاسی ترقی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ ایک تیز طرار شخصیت کی مالک ہیں۔ انگریزی اور ہندی روانی کے ساتھ بولتی ہیں۔ ان کی پرسنالٹی میں ایک کشش ہے۔ پارلیمانی انتخابات کے دوران جب دہلی پولیس نے عام آدمی پارٹی کے دفتر کو سیل کرنے کی کوشش کی تو وہ پولیس سے بھڑ گئیں اور انتہائی سخت تیوروں سے پولیس کو برا بھلا کہا۔ ان کے والد دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں۔ وہ اور ان کی اہلیہ یعنی آتشی کی والدہ دونوں کمیونسٹ نظریات کے حامل ہیں۔ انھوں نے مارکس اور لینن کے ناموں کا مخفف مارلینا بنایا اور اپنی بیٹی کا نام آتشی مارلینا رکھا۔ لیکن جب وہ سیاست میں آئیں تو بی جے پی نے ان کے نام پر ایک تنازع پیدا کر دیا جس کے بعد انھوں نے مارلینا لکھنا ترک کرکے سنگھ لکھنا شروع کر دیا۔
اروند کیجری وال ایک بہت چالاک اور تیز طرار سیاست داں ہیں۔ انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر آتشی کو وزیر اعلیٰ بنانے کا داؤ چلا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ وہ اب جب کہ وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری نہیں نبھا رہے ہیں تو ان کے پاس دہلی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں انتخابی مہم چلانے کے لیے وقت ہی وقت ہے۔ اگلے سال فروری میں دہلی اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے اور کیجری وال کی کوشش ہوگی کہ وہ پھرسے حکومت بنائیں۔ ویسے ان کی ضمانت کی منظوری پر سوال اٹھائے جا رہے تھے۔ قارئین کو یہ بات معلوم ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کے گھر جا کر گنیش کی پوجا میں حصہ لیا تھا اور اس کے بعد ہی ان کی ضمانت منظور ہوئی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان ہریانہ میں انتخابی اتحاد نہیں ہو سکا اس لیے انھیں رہا کروایا گیا ہے تاکہ وہ ہریانہ میں جم کر انتخابی مہم چلائیں اور کانگریس کے ووٹ کاٹیں۔ بہرحال ا س میں کتنی صداقت ہے ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن لوگوں نے اس شبہہ کا اظہار ضرور کیا تھا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر چہ کیجری وال کی رہائی کے مقاصد مشکوک ہیں تاہم بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ وہ بی جے پی کی مخالفت چھوڑ دیں گے۔ اس کا ثبوت 22 ستمبر کو دہلی کے جنتر منتر پر ہونے والی ان کی ریلی سے مل گیا جس میں انہوں نے وزیر اعظم مودی سے متعلق پانچ سوالات آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے کر ڈالے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر وہ بی جے پی کی بی ٹیم بن کر کام کر رہے ہوتے تو مودی کے بارے میں موہن بھاگوت سے سوال نہیں کرتے۔ وہ اپنا بڑا حریف کانگریس کو نہیں بلکہ بی جے پی کو مانتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کے ووٹ کاٹ کر ہی دہلی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئے اور ہریانہ میں بھی ان کی پارٹی دونوں پارٹیوں کے ووٹ کاٹے گی۔ ہاں بی جے پی کے کم اور کانگریس کے زیادہ۔
سوال یہ ہے کہ کیجری وال نے آتشی کو ہی کیوں وزیر اعلیٰ بنایا جب کہ دوسرے سینئر وزرا بھی موجود تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو وہی ہے کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کیجری وال کا اعتماد جیت لیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ کسی اور کو بناتے تو وہ کیا کر بیٹھتا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ان کے سامنے جھارکھنڈ کی مثال موجود تھی۔ جیل جانے سے قبل ہیمنت سورین نے چمپئی سورین کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ لیکن جب جیل سے رہائی کے بعد وہ ان کو ہٹا کر ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بنے تو چمپئی کو بہت برا لگا۔ انھوں نے پارٹی قیادت پر اپنی توہین کا الزام لگایا اور وہ بالآخر جا کر بی جے پی کی گودمیں بیٹھ گئے۔ کیجری وال ایسا کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ اگر اپنی اہلیہ کو وزیر اعلیٰ بناتے تو ان پر اقتدار کے لالچی کا الزام لگتا اور یہ بھی کہا جاتا کہ اگر چہ سنیتا کیجری وال وزیر اعلیٰ ہیں لیکن حقیقی وزیر اعلیٰ کیجری وال ہی ہیں۔ آتشی کو بنانے میں اس الزام کا کوئی خطرہ نہیں رہا۔ حالانکہ وہ بھی کیجری وال سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر پائیں گی۔ اگر وہ کسی دوسرے کو وزیر اعلیٰ بناتے تو بی جے پی کی جانب سے اس پر بھی الزامات عاید کیے جاتے اور زوردار حملہ کیا جاتا۔ لیکن آتشی کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی جا سکتی۔ ایک تو یہ کہ ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔ دوسرے اگر کوئی پارٹی ان کے خلاف مہم چلائے گی تو اسے عورت مخالف قرار دے دیا جائے گا۔
آتشی کو وزیر اعلیٰ بنانے کی صورت میں دہلی میں ہونے والے انتخابات میں خواتین کے زیادہ سے زیادہ ووٹ عام آدمی پارٹی کو مل جائیں گے۔ تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ کیجری وال خود کو ایک ایماندار سیاست داں کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان پر، ان کے رفقا پر اور ان کی پارٹی پر کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے الزام نے ان کی اور پارٹی کی ساکھ کو خراب کیا ہے اور ان کی مقبولیت میں بھی کمی آئی ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹ کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بدعنوان نہیں بلکہ ایماندار سیاست داں ہیں۔ انہوں نے دہلی کے عوام سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ انھیں زیادہ سے زیادہ ووٹ دے کر ایماندار ثابت کریں۔ حالانکہ ان کے خلاف کیس چل رہا ہے اور یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے کہ وہ بے قصور ہیں یا نہیں۔ گویا اس قدم کا مقصد اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ حاصل کرنا بھی ہے۔
جہاں تک آتشی کی بات ہے توانہوں نے وزیر اعلیٰ نامزد کیے جانے پر ایک جذباتی بیان دیا تھا اور جب انہوں نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو اس جذباتیت کو اور شوخ کر دیا۔ انھوں نے اپنی کرسی کے برابر میں ذرا بڑی کرسی رکھ کر کہا کہ وہ صرف چار ماہ کے لیے وزیر اعلیٰ بنی ہیں اور آج ان کا دل اسی طرح صدمے میں ہے ،جس طرح رام چندر جی کے بن واس جانے پر بھرت کا ہوا تھا۔ جس طرح بھرت نے سنگھاسن پر رام کے کھڑاؤں رکھ کر چودہ سال تک حکومت کی اسی طرح وہ کیجری وال کی کرسی خالی کرکے چار ماہ تک حکومت کریں گی۔ ان کا یہ انداز بہت سے تجزیہ کاروں کو پسند نہیں آیا۔ انہوں نے اسے خوشامد کی معراج قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کمیونسٹ والدین کی اولاد سے جو کہ آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ ہے رام کا نام لے کر حکومت کرنا ایک ڈراما محسوس ہو تا ہے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے کے بعد جس طرح کیجری وال کے پیر چھوئے وہ بھی لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کیجری وال کو ایسی خوشامد سے ان کو باز رکھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ عوام میں اس کا الٹا اثر پڑے۔
لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل کیجری وال وہی سارے حربے اختیار کرکے سیاست میں کامیاب ہوئے ہیں جو حربے بی جے پی اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی اختیار کرتے رہے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بی جے پی کو اسی کی تلوار سے شکست دی جا سکتی ہے۔ اسی لیےانہوں نے اپنی پارٹی کی سیاست میں مذہب کی آمیزش کی ہے۔ وہ خود کو ہنومان بھکت کہتے ہیں اور ان کے ارکان اسمبلی موقع بہ موقع ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرتے رہتے ہیں۔ کیجری وال نے مذہب کی بنیاد پر کئی اقدامات کیے ہیں۔ اسی لیے ان کو کچھ لوگ چھوٹا مودی بھی کہتے ہیں۔ ان کی یہی سب ترکیبیں ہیں جن سے بی جے پی خوف زدہ ہے۔ بہرحال انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور آتشی کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان کا یہ داؤ چلتا ہے یا الٹا پڑ جاتا ہے۔ آتشی ان کے لیے ترپ کا پتہ ثابت ہوتی ہیں یا آگے چل کر کوئی ایسا قدم اٹھاتی ہیں جس سے کیجری وال کو انھیں وزیر اعلیٰ بنانے کے فیصلے پر کف افسوس ملنا پڑ جائے۔