یوپی ۔ مدارس پر حکومتی یلغار سے مقابلہ کیسے

  مشتاق عامر
ستمبر 2024

اترپردیش میں تسلیم شدہ دینی مدارس کے خلاف جاری یوگی حکومت کی کارروائیوں کے دوران قدیم روایتی دینی اداروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پوری ریاست میں اس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ دن بہ دن دراز ہورہا ہے۔ دینی مدارس کے ذمہ داران بظاہر خود کو بے دست و پا محسوس کر رہے ہیں۔ ایک تازہ واقعہ نے اس تشویش میں مزیدضافہ کر دیا ہے ۔گزشتہ 28؍ اگست کوالہ آباد کے قدیم دینی ادارے جامعہ حبیبیہ(مسجد اعظم ) پر مقامی پولیس نے چھاپہ مارا۔  پولیس کا الزام تھا کہ مدرسے میں نقلی نوٹ بنانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں پولیس نے ایک طالب علم سمیت چار نوجوانوں کو گرفتار کیاہے ۔ پولیس کے دعوے کے مطابق مدرسے کے ایک کمرے سے نقلی نوٹ بنانے میں استعمال ہونے والے لیپ ٹاپ، اسکینر ، پرنٹر اور ایک لاکھ تیس ہزار روپئے کے جعلی نوٹ بھی بر آمد کئے گئے ہیں ۔ میڈیا کے سامنے پیش کرنے کے بعد پولیس نے چاروں نوجوانوں کو جیل بھیج دیا ہے ۔

جامعہ حبیبیہ الہ آباد شہر کے عین وسط اتر سوئیا علاقے میں واقع ہے۔مدرسہ سے متصل وقف کی ایک بڑی اراضی ہے جس پرشر پسند عناصرکئی بار قبضہ کرنے کی کوشش کر چکے ہیں ۔مدرسے کے ذمہ داران نے بارہا اس کی حد بندی کرانے کی کوشش کی لیکن شر پسندوں کی رخنہ اندازی کی وجہ سے اس کی حد بندی نہیں کی جاسکی ۔ چوں کہ جامعہ حبیبیہ تین اطراف سے غیر مسلم آبادی سے گھرا ہو اہے اس لیے مدارس کے ذمہ داران ہر طرح کے تنازعہ سے بچتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ الہ آباد کا قدیم دینی ادارہ ہے۔اس ادارے کو ریاست اڑیسہ کے ایک صوفی منش تاجر مولانا حبیب الرحمان نے آزادی سے پہلے قائم کیا تھا۔مولانا حبیب الرحمان کو عرف عام میں’’ مجاہد ملت ‘‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔مولانا نے مدرسے متصل ایک بڑی اراضی وقف کی تھی ۔وقف کی خالی زمین پر آس پاس کے لوگ اپنے ٹرک، کاریں وغیرہ کھڑی کرتے رہے ہیں ۔اس پر مدرسے نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ مدارس کے لوگوں کے تعلقات مقامی غیر مسلم آبادی کے ساتھ بھی خوشگوار رہے ہیں۔ لیکن گذشتہ کئی برسوں سے شرپسند عناصر اس زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔جامعہ پر پولیس کے چھاپے کی کارروائی نے شر پسندوں کے حوصلے اوربڑھا دئے ہیں ۔پولیس کی کارروائی کو ہندی اخباروں اورلوکل میڈیا نے جس طرح پیش کیا،اس سے مدرسے کی شبیہ بری طرح مسخ ہوئی ہے۔

یہی حال ریاست کے دیگر علاقوں کا بھی ہے ۔جانچ کے نام پر دینی مدارس کے ذمہ داران کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور میڈیا میں ان کو ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔فرضی خبروں کے ذریعے مدارس کی کردار کشی کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ یو پی میں تین طرح کے دینی مدارس ہیں ایک وہ مدارس ہیں جو ریاستی حکومت سے مالی امداد یافتہ ہیں ۔امداد یافتہ مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ ریاستی حکومت کی طرف سے ادا کی جاتی ہے ۔ ان مدارس کی کل تعداد 560 ہے ۔حکومت سے تسلیم شدہ دینی مدارس اور مکاتب کی تعداد 16513؍ ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ ہزار سے زائد وہ دینی مدارس ہیں جو حکومت سے نہ تو کسی طرح کی کوئی مالی امداد لیتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے یو پی مدرسہ بورڈ میں اپنا رجسٹریشن کرایا ہے۔ یہ مدارس عوامی عطیات اور مخیر افراد کی امداد پر چلتے ہیں۔حکومت سے غیر تسلیم شدہ مدارس میں دار العلوم دیوبند ، مظاہر علوم ، دارالعلوم ندوۃ العلما ، جامعہ اشرفیہ ، جامعۃ الفلاح اور جامعہ سلفیہ جیسے عالمی شہرت یافتہ مدارس شامل ہیں ۔در اصل عالمی شہرت یافتہ بڑے دینی اداروں کو ٹارگیٹ کرنے کی تیاری بہت پہلے سے کر لی گئی تھی ۔اسی سال مار چ میں یوگی حکومت نے دینی مدارس کی وسیع تر جانچ کے لیے اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم( ایس آئی ٹی ) تشکیل دی تھی۔ایس آئی ٹی کا کام تھا ’’غیر قانونی‘‘ مدرسوں کی نشان دہی کرنا۔ جانچ کے بعد ایس آئی ٹی نے حکومت سے ریاست کے غیر تسلیم شدہ  8449 دینی مدارس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی۔  یوپی کے چیف سیکرٹری کی جانب سے ایک سرکولر جاری کرکے کہا گیا کہ یہ مدارس سرکار سے یا کسی حکومتی  ادارے سے تسلیم شدہ نہیں  ہیں لہذا وہ سرکار کے کسی ضابط کی پابندی بھی نہیں  کرتے اور اسی طرح وہ تعلیم کے حق کے قانون  کے مطابق بچوں  کو بیسک تعلیم بھی نہیں  دیتے۔ لہذا ان میں  زیر تعلیم بچوں کو مدرسوں سے نکال کر سرکاری  یا کسی حکومت سے تسلیم شدہ اسکول میں  داخل کرایا جائے۔ ان مدارس میں ایسے بڑے دینی اداروں کو بھی شامل کر لیا گیا جو سو سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں ۔ چیف سیکرٹری کی ہدایت کے بعد مقامی انتظامیہ نے مدارس کو کئی طریقوں سے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق ریاست میں تسلیم اور غیر تسلیم شدہ دینی مدارس میں تقریباً26؍ لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔الہ آباد ہائی کورٹ پہلے ہی اپنے فیصلے میں یو پی کے حکومت  سے منظور شدہ اور مالی امداد یافتہ مدارس کو غیر آئینی قرار دے چکا ہے ۔ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ٹیچرس ایسو سی ایشن مدارس عربیہ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ۔فی الحال الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دے رکھا ہے ۔اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے زیر سماعت ہے۔سپریم کورٹ کے حکم امتناعی کے با وجود تسلیم شدہ اور مالی امداد یافتہ دینی مدارس پر ایک طرح سے تلوار لٹک رہی ہے ۔

اس سلسلے میں آل ان ڈیا مسلم پرسنل بورڈ  کے ایک وفد نے جس کی قیادت بورڈ  کے جنرل  سیکرٹری مولانا فضل الرحیم مجددی  نے کی تھی اور جس میں بورڈ  کی عاملہ کے ارکان مولانا عتیق  احمد بستوی، مولانا خالد رشید فرنگی  محلی اور  ڈاکٹر  سید قاسم رسول الیاس شامل تھے یوپی کے وزیر اعلی یوگی ادتے ناتھ سے ملاقات کرکے بتایا کہ چیف  سیکرٹری  کا یہ خط ہندوستان  کے دستور کی دفعات 14,21,25,29 اور 30 سے ٹکراتا ہے جس میں  ملک کی ہر مذہبی اکائی بالخصوص اقلیتوں  کو یہ دستوری  حق حاصل ہے کہ وہ اپنےمذہب اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کے لئے اپنے تعلیمی ادارے قائم کرسکتے ہیں اور اس کا انتظام و انصرام بھی خود کرسکتے ہیں۔ اسی طرح حق تعلیم کے قانون( RTE)سے بھی مدارس اور ویدک پاٹ شالاؤں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

 ریاست میں آئے دن کسی نہ کسی مدرسے کے خلاف حکومت کی طرف سے کارروائی  کی جاری ہے۔ایسی کارروایاں مقامی انتظامیہ یا پولیس کی طرف سے کی جا رہی ہیں۔عموماً ایسے معاملوں میں کسی ایک مدرسے کو ٹارگیٹ کیا جاتا ہے ۔ یا پھر ایسی ہی کارروائی کسی دوسرے ضلع میں کی جاتی ہے۔ زیادہ تر کارروائی مدارس کے ذمہ داروں کو ہراساں کرنے اور ان پر نفسیاتی دباؤ بنانے کے لیے کی جاتی ہے ۔ مقامی ہندی اخبار اور لوکل میڈیا ان کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ۔میڈیا کی کوشش مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں متاثرہ مدرسے کے ذمہ داران سخت دباؤ میں  رہتے ہیں ۔نام نہاد مین اسٹریم میڈیا بھی مدارس کا  موقف نہیں دکھایا جاتا ۔اس طرح پورے یو پی میں دینی مدارس کی کردار کشی کرکے دانستہ طور سے شر پسندوں کو اکسانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ ایسے معاملوں میں پولیس اور انتظامیہ کا کردارمسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے ۔اس وقت پوری ریاست میں دینی مدارس اور اوقاف کے خلاف ایک ایسا ماحول تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں دینی شناخت کے حامل اداروں کی شبیہ کومسخ کرکے ان کو ملک دشمن قرار دیا جائے۔ان حالات کے پیش نظر آنے والے دن مدارس کے لیے اور مشکل بھرے ہو سکتے ہیں ۔ یوگی حکومت دینی مدارس کے خلاف جس طرح ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے گرچہ آپشن نہایت محدود ہیں ۔ تاہم حفظ ما تقدم کے طور پر درج ذیل عملی اقدام  اگرکیے جائیں تو بیشتر مدارس کے لیے مسئلے کو حل کرنے میں آسانی ہو جائے گی :

1۔مدارس ، مساجد اور وقف اراضی کے قانونی دستاویزات کو درست رکھیں۔ اگر وقف اراضی ہے تو اسے وقف بورڈ میں درج کرائیں اور اگر ذاتی ملکیت ہے تو کاغذات مکمل اور خامیوں سے پاک رکھیں۔ کاغذات میں کوئی خامی یا کمی ہو تو اس کو فوراً درست کرالیں۔اس معاملے میں ماہر اور قابل اعتماد وکلا کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں ۔

2۔مدرسے یا دینی ادارے اپنے مالی معاملات کو شفاف رکھیں ۔عوامی چندہ ، عطیات یا امداد کا باقاعدہ حساب رکھیں ۔اس کے لیےرجسٹر اور فائل تیار کریں ۔ہر مالی سال میں مدرسہ کا آڈٹ لازمی طور سے کرائیں۔ اس کے لیے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ( سی اے ) کی خدمات حاصل کریں ۔اس کام کے لیے کسی پیشہ ور اکاؤنٹنٹ کا تقرر بھی کیا جا سکتا ہے۔

3۔کسی طرح کی مالی آمدنی کو پوشیدہ نہ رکھیں ۔ایسی کوئی غلطی نہ کریں کہ جانچ کے دوران آپ اس کا جواب نہ دے پائیں ۔

4۔ روایتی طور پر جو دینی مدارس یا مکاتب برسوں سے چل رہے ہیں ان کو کسی ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت رجسٹر کرائیں  تاکہ ان کی قانونی حیثیت  ہوجائے۔

5۔ مدرسے کی انتظامیہ کمیٹی میں علما کے علاوہ وکلا ،صحافی، سماجی کارکن اور ماہر تعلیم کو بھی شامل کریں ۔تاکہ مشکل وقت میں ان سے حسب ضرورت کام لیا جا سکے۔

6۔ مدرسے میں زیر تعلیم تمام بچوں کا تحریری رکارڈ اور ان کے ذاتی کوائف محفوظ رکھیں۔ زیر تعلیم بچوں کے والدین یا سر پرست کا پتہ اور فون نمبر باقاعدگی سے درج ہونا چاہئے۔ اگر کوئی مشکل در پیش ہو تو بچوں کے والدین کو اطلاع دیں۔

7۔سرکاری بقایاجات ( ٹیکس اور بل وغیرہ ) وقت پر جمع کریں اور ان کی رسیدیں محفوظ رکھیں۔

8۔مدرسہ یا مسجد کو مسلکی اختلاف کا اڈہ نہ بننے دیں ۔اس سے آپ تنہا ہو جائیں گے۔ اسلامی اخوت اور ملی اتحاد کا ثبوت دیں ۔

9۔ کسی طرح کی جانچ یا نوٹس آنے پر پریشانی یا گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کریں۔ بلکہ صلاح و مشورے کے بعد پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ باضابطہ اس کا جواب دیں ۔

10۔ مدارس کے ذمہ داران اپنے سماجی رابطوں کو مضبوط بنائیں۔ سماج کے دکھ سکھ میں شامل ہوں ۔عام لوگوں کے درمیان مکالمہ بڑھائیں۔

مندرجہ بالاعملی اقدام سے دینی مدارس کو درپیش مشکلات سے نمٹنے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ حکومت دینی مدارس کی چھوٹی سے چھوٹی خامی کو بنیاد بناکر ان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے ۔دینی مدارس کے خلاف حکومت کی منظم کارروائی ایک سیاسی اور ملی مسئلہ بھی ہے۔ اس مسئلے پر ملت کے اکابرین کو ایک ساتھ مل کر جد و جہد کرنی ہوگی ۔ریاست کی ہم خیال سیاسی پارٹیوں کو بھی اس مسئلے میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔اقلیتوں کی مذہبی آزادی، اظہار رائے کی آزادی اورا دارہ قائم کرنے کی آزادی آئینی حق ہے ۔ بنیادی حقوق کی پالی کے لیے اٹھنے والے ہر قدم کے خلاف مزاحمت کرنا نہ صرف آئینی حق ہے بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق میں بھی شامل ہے ۔