نام نہاد مین اسٹریم میڈیا پر تسلط جمانے کے بعد حکومت نے اب سوشل میڈیا پر سرگرم Digital Influencersکو خریدنے کی تیاری کر لی ہے ۔یوگی حکومت نے سوشل میڈیا پر اچھی پہنچ رکھنے والے ایسے افراد کوماہانہ آٹھ لاکھ روپئے تک ادا کرنے کامنصوبہ بنایا ہے ۔گذشتہ 27؍ اگست کو لکھنؤ میں ہونے والی یوگی حکومت کی کابینہ میٹنگ میں ’ یو پی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی 2024‘ کو منظوری دے دی گئی ۔ اس پالیسی کے تحت سوشل میڈیا پر یوگی حکومت کی پالیسی اور منصوبوں کا پرچار کرنے والے Digital Influencers کو آٹھ لاکھ روپئے تک کی ماہانہ ادائیگی کی جائے گی ۔ نئی ڈیجیٹل پالیسی میں سوشل میڈیا پر ملک مخالف ، سماج مخالف اور توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے پر تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا دئے جانے کا ضابطہ مقرر کیا گیا ہے ۔ کابینہ سے منظور ہونے کے بعد پالیسی کے نفاذ کی تیاریاں زور شور سے شروع کر دی گئی ہیں۔’ یو پی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی ‘ کے تحت یوگی حکومت کی کار کردگیوں کی حمایت اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پراس کا پر چار کرنے والوں کو ہر ماہ خطیر رقم سے نوازا جائے گا ۔ نئی پالیسی کے مطابق جہاں ایک طرف یوگی حکومت کا پرچار کرنے والوں کو مالی فائدہ پہنچانے کا بندوبست کیا گیا ہے ، وہیں دوسری جانب ملک مخالف اور توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے والوں کے خلاف تین سال سے عمر قید تک کی سزا کا بندو بست کیا گیا ہے ۔
نئی میڈیا پالیسی میں ایسے ضابطے بنائے گئے ہیں جس کی آڑ لے کر یوگی حکومت کی پالیسی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا جا سکے ۔نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کے تحت ایکس،انسٹاگرام ، یو ٹیوب ،فیس بک ،ایکس اور پوڈ کاسٹ کے ذریعے یوگی حکومت کی پالیسی کا پرچار کرنے والے Digital Influencers کوماہانہ تنخواہ دی جائے گی۔ اس کے لیے حکومت نے اپنا ٹیرف بھی شائع کر دیا ہے ۔ ریاست کے پرنسپل سکریٹری ( انفارمیشن ) سنجئے پرساد کے مطابق فیس بک ، ایکس اور انسٹا گرام پر یوگی حکومت کی حصولیابیوں کاپرچار کرنے والے افراد کو بالترتیب ہر ماہ پانچ لاکھ ، چار لاکھ ، تین لاکھ اور دو لاکھ روپئے ادا کئے جائیں گے ۔ یو ٹیوب ویڈیوز ، شارٹ ریلس اورپوڈ کاسٹ کے لیے بالترتیب آٹھ لاکھ ، سات لاکھ ، چھ لاکھ اور چار لاکھ رروپئے ماہانہ کے حساب سے ادائیگی کی جائے گی ۔نئی ڈیجیٹل پالیسی کے تحت یوگی حکومت ہر اس شخص کے خلاف سخت قانونی کارروائی کر ے گی جو سوشل میڈیا پر ملک مخالف یا توہین آمیز مواد پوسٹ کرے گا ۔اس کے لیے عمر قید تک کی سزا کا علان کیا گیا ہے ۔ ماضی میںایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب مسلم نوجوانوں کے خلاف اس طرح کی تادیبی کارروائیاں کی گئی ہیں ۔یہ بات جگ ظاہر ہے کہ یوگی حکومت ’ملک مخالف ‘ اور ’توہین آمیز ‘ جیسی مبہم اصطلاحات کی توضیح اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کرتی ہے ،جس میں عموماً مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے ۔اس پالیسی کے تحت یوگی حکومت کی مدح سرائی کرنے والوں کو تو سرکاری خزانے سے بھاری بھرکم رقمیں فراہم کی جائیں گی لیکن جو افراد یوگی حکومت کی پالیسی سے اختلاف کریں گے یا ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھائیں گے ان کے لئے سخت سزاؤں کا بندو بست کیا گیا ہے ۔ نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کی تیاری بڑی بے رحمانہ طریقے سے کی گئی ہے ۔ اس پالیسی کے عمل میں آجانے سے سوشل میڈیا پر فعال آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان لیے یوگی حکومت کی پالیسی پر تنقید کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ ایسے حقائق بھی سامنے لانا مشکل ہو جائے گا جس پر حکومت پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس پالیسی کی بنیاد پرپولیس ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرے گی۔اور انھیں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے گا ۔ یو پی ڈیجیٹل میٖڈیا پالیسی آئین میں دی گئی اظہار رائے کی آزادی اور جمہوری قدروں کی صریح خلاف ورزی ہے ۔اس میں کھلے طور پر ایسے لوگوں کو پیسے کا لالچ دیا گیا ہے جو حکومت کی چاپلوسی کریں ۔اس پالیسی میں باقاعدہ زمرہ بنا کر ایسے لوگوں کی قیمت طے کر دی گئی ہے، جو حکومت کی مدح سرائی مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارموں سے کریں گے ۔اس پالیسی کے تحت حکومت سے مراعت پانے والوں کا ایک ایسا ٹولہ وجود میں آ جائے گا جو حکومت کی حصولیابی کی آڑ میں دن رات منافرت پھیلانے کا کام بھی کرے گا۔چوں کہ اس ٹولے کو حکومت اور پولیس کا تحفظ حاصل ہوگا، ایسے میںان کے خلاف قانونی کارروائی کی ہمت کو ن کر ے گا؟ ۔یوگی حکومت اپنی سر پرستی میںایک ایسی ’ ڈیجیٹل آرمی ‘ تشکیل دے رہی ہے جو ایک مخصوص آبادی کے خلاف منافرت پھیلانے کا کام کرے گی ۔
یو پی کی نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں نے ابھی تک صرف رسمی بیانات جاری کئے ہیں ۔سماج وادی پارٹی اور کانگریس نے یو گی حکومت کی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کی مذمت کی ہے ۔لیکن اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے کسی عملی اقدام کا ذکر نہیں کیا ہے۔مسلمانوں کے تعلق سے سماج وادی پارٹی کا رویہ نہ صرف افسوس ناک رہاہے بلکہ بعض موقعوں پر نظر انداز کرنے والا بھی ہوتاہے۔پارٹی کی قیادت جانتی ہے کہ یو پی کا مسلمان سپا کو ووٹ دینے پر مجبور ہے ۔اس کا ثبوت پچھلے لوک سبھا چناؤ میں اسے زبر دست کا میابی کی شکل میں مل گیا ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے ترجمان عمیق جامعی نے نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کی مذمت کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ’’ نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی میں قلم کو گروی رکھنے کا سرکاری ریٹ طے کر دیا گیا ہے ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ حکومت کو اس پالیسی کو واپس لینا ہو گا‘‘۔ نئی ڈیجیٹل پالیسی میں حکومت کا پرچار کرنے والے ڈیجیٹل اثر اندازوں کو تو مالی فائدہ پہنچایا جائے گا اور ان کو حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہوگی ۔جبکہ حکومت کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والوں کو عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے ۔پالیسی میں واضح کیا گیا ہے کہ ملک مخالف اور توہین پر مبنی مواد پوسٹ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ظاہر ہے کون سا مواد ملک مخالف ہے اور کون سا توہین آمیز ،اس کا فیصلہ یوگی حکومت اور پولیس کو طے کرنا ہے ۔لیکن یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حکومت کی منشا اور اس کا اشارہ کس کی جانب ہے ۔ ماضی میں یوگی حکومت نے ان الزمات کا نشانہ مسلم طبقے کو بنایا ہے ۔ یہ پالیسی ایک طرف جمہوری آوازوں کو دبانے کا کام کرے گی وہیں دوسری طرف اسے مسلمانوں کے خلاف عمل میں لایا جائے گا ۔فی الحال یوگی حکومت اس پالیس کو نافذ کرنے میں پر عزم دکھائی دے رہی ہے ۔ حکومت کی جانب سے یہ بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ اس پالیسی کا دائرہ دوسری ریاستوں کے علاوہ بیرون ملک تک بڑھایا جا سکتا ہے ۔یعنی یوگی حکومت کا پرچار کرنے والے Digital Influencersکو بیرون ملک بھی مالی فائدہ پہنچانے کا منصوبہ ہے ۔
یوگی حکومت کی نئی ڈیجیٹل پالیسی کا مجموعی جائزہ لینے کے بعد سب سے بڑی تشویش یہ پیدا ہوتی ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم پر حکومت کی پالیسی کی حمایت میں پرچار کرنے والے افرادکو حکومت کا تحفظ حاصل ہوگا اور ان کو آٹھ لاکھ روپئے تک کی ماہانہ ادائیگی کی جائے گی ۔اس کے بر عکس سوشل میڈیا پر حکومت کی پالیسی سے اختلاف یا تنقید کرنے والے افراد کو سنگین قسم کے مقدمات کا سامنا ہوگا۔ان حالات میں ایک بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ملک میں آئی ٹی ایکٹ کے تحت سخت قوانین پہلے ہی سے موجود ہیں ، تو ایسے میں نئی پالیسی بنا کر نئے قوا نین کو نافذ کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی ؟ظاہر ہے ایسے میں یوگی حکومت کی منشا پر سوال ضرور اٹھیں گے ۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لوک سبھا چناؤ میںبی جے پی کی کراری ہار نے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت پر سوالیہ نشان لگا دئے ہیں ۔ 2027کا یو پی اسمبلی چناؤ جیتنایوگی کی سیاسی بقا کے لیے بہت ضروری ہے ۔ اگر یوگی حکومت کی عوامی مقبولیت کو لوک سبھا چناؤ کے نتائج کی روشنی میں دیکھا جائے تو یوگی کے لیے اسمبلی چناؤ جیتنا ایک بڑا سیاسی چیلنج ہوگا ۔ اپنی سیاسی بقا کے لیے یوگی آدتیہ ناتھ ہر قیمت پر اسمبلی چناؤ میں جیت حاصل کرنا چاہیں گے ۔ اس کے لیے انہوں نے ابھی سے تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔ سوشل میڈیا کے اثر کو دیکھتے ہوئے یوگی حکومت نے اپنے پرچار کے لیے ایک ایسا متوازی سسٹم بنانے کی تیاری کر لی ہے جو غیر سرکاری سطح پر ان کی اور حکومت کی مبینہ حصولیابیوں کا پرچار کر سکے ۔ اس پالیسی کا سب سے خطر ناک پہلو یہ ہے کہ یوگی حکومت کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والوں کو فرضی مقدمات میں پھنسایا جا سکتا ہے ۔سوشل میڈیا پر یوگی حکومت کے ناقدین کی کمی نہیں ہے۔بہت سے ایسے آزاد صحافی یا سماجی کارکنان ہیں جو سوشل میڈیا پربے حد مقبول ہیں اور ان کو پسند کرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔اس پالیسی کے ذریعے ان پر قدغن لگانے میں آسانی ہو جائے گی ۔ نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد ایک خدشہ اور بھی ابھرتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس پالیسی کی آڑ میں یوگی حکومت ان مسلم نوجوانوں کے خلاف بڑی کارروائی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہو جو سوشل میڈیا پر اپنے آئینی اور جمہوری حقوق کے لیے لگاتار ّآوازیں اٹھا رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو آنے والے دن جمہوری قدروں کے لیے بدترین ہوں گے ۔