یوپی میں مسلم سیاسی پارٹیوں کا مستقبل

مشتاق عامر
ستمبر 2024

یو پی میں مسلم آبادی کا تناسب بیس فیصد سے زیادہ ہے ۔آبادی کا یہ تناسب ملک کی کئی دیگر ریاستوں کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہے ۔لیکن اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود سیاسی اعتبار سے یہاں کے مسلمان سب سے نچلی پائیدان پر ہیں۔مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی میں ایک بھی ایسی شخصیت نہیں ہے جس کو مسلمانوں کا سیاسی قائد یا نمائندہ قرار دیا جا سکے۔ کہنے کو تو یو پی میں مسلمانوں کی ایک درجن کے قریب سیاسی پارٹیاں موجود ہیں۔ لیکن پہلے یہ پارٹیاں سیاسی بیانوں تک محدود ہوا کرتی تھیں اب صرف کاغذوں تک سمٹ کر رہ گئی ہیں ۔

مسلم لیگ، مسلم مجلس، ملی جمہوری محاذ ، پرچم پارٹی ، پیس پارٹی، نیشنل لوک تانترک پارٹی اورا نڈین نیشنل لیگ ایسی پارٹیاں ہیں جو مسلمانوں کی سیاسی قیادت کی دعویدار رہی ہیں ۔اپنے شروعاتی دور میں مسلم مجلس نے کچھ کار ہائے نمایاں ضرور انجام دئے تھے  لیکن اس کے علاوہ زیادہ تر پارٹیوں نے اپنی غیر دانشمندانہ کارکردگی کی وجہ سے مسلم عوام کو صرف مایوس ہی کیا ہے۔ان  پارٹیوں کو مسلم عوام کی وسیع تر حمایت کبھی حاصل نہیں رہی۔ تاہم اس وقت یو پی کی مسلم پارٹیوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ ایک سیاسی پارٹی کے لیے جس طرح کی عوامی جد و جہد اور سیاسی فہم و دانائی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا ان نام نہاد سیاسی پارٹیوں میں شروع سے ہی فقدان رہا ہے۔مسلم لیڈروں کی سیاسی مرعوبیت اور ذاتی مفاد پرستی نے ان کو مقبول عام لیڈر نہیں بننے دیا ۔ سیاسی قیادت کی پہلی شرط ہی یہی ہوتی ہے کہ اس کے اندر خوف و مایوسی کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔استقامت، دور اندیشی اور عوامی جد وجہد قیادت کو نکھارنے کا کام کرتی ہے ۔ افسوس کہ یو پی کی مسلم سیاسی پارٹیاں ان لازمی اوصاف سے عاری رہیں۔ جس وقت مسلمانوں کو ان پارٹیوں کی سخت ضرورت تھی اس وقت یہ پارٹیاں میدان سے غائب ہو گئیں اور ان کے لیڈروں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔

یوگی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم قیادت جس طرح خوف کا شکار ہو گئی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ مخالف سیاسی حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے مسلم لیڈروں نے اپنا منھ چھپانا زیادہ بہتر سمجھا۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی یوگی حکومت کی یک طرفہ کارروائیوں کے خلاف مسلم پارٹیوں نے ابھی تک زبان نہیں کھولی ہے ۔ یو پی میں چلائی جانے والی سی اے اے اور این آر سی کے خلاف عوامی تحریک کے دوران بھی کوئی قابل ذکر مسلم سیاسی لیڈر سامنے نہیں آیا  تھا۔ بلکہ بعض لیڈروں کی جانب سے پس پردہ عوامی احتجاج کی حوصلہ شکنی تک کی گئی ۔ نام نہاد مسلم لیڈران پولیس ایکشن اور بلڈوزروں سے مکانات منہدم کئے جانے کی کارروائی کے دوران بھی میدان سے غائب رہے ۔مسلم سیاسی پارٹیوں  کے اس غیر معیاری رویے نے عوام کے اندر مایوسی کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔اگر بلڈوزروں کی غیر قانونی کارروائیوں کے خلاف مسلم سیاسی پارٹیاں متحد ہوکرایک پلیٹ فارم پر آ جاتیں تو آج

 یوپی کے سیاسی حالات مختلف ہوتے۔مسلم عوام میں ان کی مقبولیت اور اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا۔ان پارٹیوں کے پاس مسلم عوام کا اعتماد حاصل کرنے کا یہ ایک موقع تھا جس کو انہوں نے گنوا دیا۔ مسلم عوام پر پڑنے والے سخت حالات کے درمیان مسلم پارٹیوں نے ان کو تنہا چھوڑ دیا۔اس طرز عمل نے پوری مسلم سیاسی قیادت کو عوام میں مشکوک بنا دیا۔

موجودہ حالات میں مسلم سیاسی پارٹیوں کو عوام کا اعتبار حاصل کرنا بہت ضروری ہے ۔ان کو ایسا سیاسی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے جو ان کے اعتبار کو عوام میں بحال کر سکے ۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ پارٹیاں اپنی سیاسی موت آپ مر جائیں گی۔

مسلم پارٹیوں کو باہری اور داخلی محاذ پر محنت کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔مسلم پارٹیوں کو مین اسٹریم کی سیاست میں خود کو ثابت کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی پارٹی کو ازسر نو منظم کرناہوگا ۔ ریاست میں پائی جانے والی تمام مسلم سیاسی پارٹیوں کی تشکیل نو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔مسلم لیڈران اپنی پارٹی کو ایک سرگرم سیاسی تنظیم کی شکل میں ڈھالیں، عوام سے رابطے بڑھائیں اور نئے سر ے سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔ اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کریں، ایشوز سے خود کو وابستہ کریں۔غور و فکر کے بعد سیاسی معاملات میں ایک واضح موقف اختیار کریں۔مسلم پارٹیوں میں تربیت یافتہ سیاسی کارکنان کی بھی سخت کمی ہے ۔ ضرورت  ہے کہ یہ پارٹیاں اپنے کارکنان کی سیاسی تربیت کو بھی  ترجیحات میں شامل کریں ۔ریاست میں کسی بھی مسلم سیاسی پارٹی کے پاس خود کا کوئی کیڈر موجود نہیں ہے ۔یہی وجہ سے کہ حکومت کی طرف سے ہونے والے سیاسی جبر کا سامنا یہ پارٹیاں نہیں کر پاتیں اور اسی بناء پر عوام کی حمایت سے وہ محروم ہیں ۔عوامی حمایت اسی وقت حاصل ہوگی جب عوام کو درپیش مسائل و مشکلات میں یہ کھل کر سامنے آئیں گی اور  ایثار وقربانی،  استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔

ان پارٹیوں کا اپنا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونا بھی سیاسی مقاصد کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہے۔ بیشتر پارٹیوں کی خواہش الیکشن لڑنے اور اسمبلی تک پہنچنے تک محدود رہتی ہے ۔الیکشن لڑنے اور اسمبلی تک پہنچنے کا ہدف بھی اسی وقت پورا ہوتا ہے، لہجب عوام کے جمہوری و دستوری حقوق کے حصول کے لیے ایک طویل اور مخلصانہ  جدو جہد کی جائے۔مسلم سیاسی پارٹیوں کو مذہبی و فرقہ وارانہ شکل دینے سے بھی گریز کریں۔ آر ایس ایس کی ایک اہم  کوشش یہ بھی  ہے کہ مسلم سیاست کو فرقہ پرستی کی طرف لے جایا جائے تاکہ مذہبی منافرت پھیلانے میں آسانی ہو ۔ بالعموم مسلمانوں کی جانب سے بنائی جانے والی پارٹی صرف مسلمانوں  ہی کی بات کرتی ہے، وہ کبھی سماج کے کمزور، تہی دست، محروم و مظلوم طبقات کے لئے آواز نہیں  اٹھاتیں- وہ کس قسم کا ملک اور کس قسم کا سماج  بنانا چاہتی ہیں یہ بھی واضح نہیں  ہوتا- ان کا تصور ہندوستان  کیا ہے نہ اس پر ان پارٹیوں کا کوئی لٹریچر ہے اور نہ کوئی مینوفیسٹو-  یہی وجہ ہے کسی دوسری قوم یا طبقہ کے افراد کےلئے ان پارٹیوں میں کوئی کشش نہیں  ہوتی اور مسلمان بھی ووٹ  دیتے وقت انہیں  نظر انداز کر دیتے  ہیں، اس لئے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے  علاوہ کوئی اور طبقہ ان کو گھاس نہیں   ڈالے گا پھر ہم اپنا ووٹ کیوں ضائع  کریں- ہاں  اگر ان پارٹیوں  کے دروازے  بھی دوسرے  طبقات کے لئے کھلے ہوں، سماجی  انصاف کی جدوجہد  ہو یا معاشی  نا ہمواری کے خلاف محاذ آرائی، وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جدوجہد ہو یا ظلم سے نبردآزمائی، سماج کے ہر طبقہ کو اس میں یہ نظر آنا چاہیے  کہ ہمارے  درد کا درمان بھی یہاں ہوسکتا ہے تب دوسرے  طبقات بھی ان پارٹیوں  میں  اپنے لئے کشش پائیں گے- ملک کی بہت سی ذات پات کی سیاست کرنے والی پارٹیاں بھی اپنے نام اور پالیسی وپروگرام کی حد تک تو اپنے اندر عموم رکھتی ہیں- یہ اور بات ہے کہ جب وہ اقتدار میں  آتی ہیں تو انہیں اپنے خاندان، اپنی برادری اور اپنی ذات پات کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آتا۔ مسلمان ایک خیر امت ہیں، تمام انسان ان کی نگاہ میں اولاد آدم ہیں- سماج کے مظلوم و محروم طبقات کو انصاف دلانا ان کی اولین  ترجیح  ہونی چاہیے- یہ بات اسلامی اصول کے بھی خلاف ہے کہ صرف آپ اپنے بھلے کے لیے سوچیں اور دیگر مظلوموں کو نجات دلانے کے لیے کچھ نہ کریں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلم پارٹیوں کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوں اور وہ آئینی اور جمہوری قدروں پر قائم کی جائے ۔ تعلیم ،معاشرہ سازی ، افراد سازی ،اخلاق ، صحت ،تجارت ،کاشت کاری سبھی چیزیں انسانی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ اقتدار کے حصول کے لئے جدوجہد بھی بے حد ضروری ہے۔ لہٰذا ہم اپنی قیادت میں ایک ایسی پارٹی تشکیل دیں جس میں ہر طبقے کے افراد شامل ہوں ۔مسلمانوں کے  حالات چاہے جتنے  بھی ناگفتہ بہ ہو جائیں اقتدار میں حصے داری  ہی ایسا راستہ ہے جس سے ہم اپنی سیاسی بے وزنی و بے وقعتی کو دور کرسکتے ہیں اور  ایک باوقار زندگی کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی غلامی اور ان کی حاشیہ برداری کرکے سوائے ذلت کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ اگر مسلمان اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ان کو اپنی قیادت قائم کرنی ہوگی ۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ۔مسلمان اس وقت سیاسی اعتبار سے تیسرے درجے کا شہری بن گیا ہے ۔ اس کے سر پر اجتماعی قتل عام کا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ تمام طرح کی جمہوری قوتوں کے ساتھ سیاسی قوت کا حصول وقت کا سب سے بڑا تقاضہ ہے ۔ سیاسی شعور اورعوامی تحریک کے ذریعے ہی سیاسی اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ یو پی کی مسلم سیاسی پارٹیوں کو مستقبل میں اگر اپنا وجود باقی رکھنا ہے تو ان کو عوام کے درمیان آکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرنا ہوگا ۔ عوام کی حمایت کے بغیر سیاسی پارٹیوں کا  نہ کوئی تصور ہے اور نہ ہی ان کا کوئی مستقبل ۔