سہیل انجم
پہلے دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا پھر عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا رکن سنجے سنگھ اور اس کے بعد وزیر اعلیٰ اروند کیجری والی کی گرفتاری نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیوں کہ عام آدمی پارٹی کے علاوہ تجزیہ کاروں اور مبصروں کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ گرفتاریاں سیاسی بدنیتی کے تحت کی گئی ہیں اور ان کامقصد عام آدمی پارٹی کو کمزور کرنا اور عام انتخابات میں اسے نقصان پہنچانا ہے۔ عام آدمی پارٹی کا تو یہاں تک الزام ہے کہ مودی حکومت دہلی میں اس کی حکومت کا تختہ پلٹ کر خود اس پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ پارٹی کے رہنماؤں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حکومت پارٹی کو ہی صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی اس سے خطرہ محسوس کرتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اگر اس کے قافلے کو نہیں روکا گیا تو وہ اس کے راستے میں روڑہ بن جائے گی۔
یہ بات بڑی حد تک سمجھ میں آتی ہے۔ کیوں کہ عام آدمی پارٹی نے صرف کانگریس کے ووٹ بینک پر ہی قبضہ نہیں کیا ہے بلکہ اس نے بی جے پی کے ووٹ بینک پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ورنہ دہلی میں بی جے پی کی پوزیشن پہلے بہت مضبوط تھی اور کئی بار اس کی حکومت بھی رہی ہے۔ بی جے پی کے اس اندیشے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اروند کیجری وال اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے وہی حربے اختیار کر رہے ہیں جو بی جے پی اختیار کرتی آئی ہے۔ یعنی ہندوتو کی سیاست کا حربہ۔ گویا عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو اسی کے ہتھیار سے شکست دینے کا فیصلہ کر لیا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہے۔ اس نے دہلی کے بعد پنجاب پر قبضہ کر لیا اور وہاں اس کی حکومت بن گئی۔ بی جے پی کے گڑھ گجرات اور گوا میں بھی اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض دیگر ریاستوں میں بھی اس نے اپنی پہنچ بنائی ہے۔
ا س ملک میں متعدد علاقائی پارٹیاں ہیں جن میں سے کچھ ہی قومی پارٹی کا درجہ رکھتی ہیں۔ جب کہ 2012 میں جنم لینے والی جماعت عام آدمی پارٹی اپنے ووٹ شیئر کی بنیاد پر قومی پارٹی بن گئی ہے۔ ان تمام حالات نے بی جے پی کو مجبور کیا کہ وہ اس کا راستہ روکے اور اپنے لیے مستقبل میں بننے والے ایک خطرے کو پہلے ہی جڑ سے ختم کر دے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اسی لیے اس کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کیاگیا ہے۔ سابق وزیر صحت ستیندر جین تو ایک عرصے سے جیل میں ہیں۔ منیش سسودیا ایک سال سے زائد عرصے سے جیل میں بند ہیں۔ سنجے سنگھ کو چھ ماہ کے بعد ضمانت مل گئی۔ وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کو منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ادارے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ یعنی ای ڈی نے 21 مارچ کو گرفتار کر لیا اور عدالتیں سسودیا اور کیجری وال کی ضمانتیں منظور نہیں کر رہی ہیں۔ جب کہ عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ای ڈی نے شراب پالیسی کیس میں رشوت ستانی کے جس الزام کے تحت کیجری وال اور سسودیا کو گرفتار کیا ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے اور ای ڈی ایک پیسہ بھی ان دونوں کے یہاں سے برآمد نہیں کر سکی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس پیسے کا لین دین بی جے پی نے کیا ہے۔
بہرحال ان رہنماؤں کی گرفتاری کے اسباب حقیقی ہیں یا واقعی ان کو سیاسی وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا گیا ہے یہ بحث کا ایک الگ موضوع ہے۔ سردست اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان گرفتاریوں اور خاص کر کیجری وال کی گرفتاری کے عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے سوچا کہ یہ اچھا موقع ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے موقع پر ہی عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا جائے تاکہ وہ انتخابی مہم ہی نہ چلا سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اروند کیجری وال عوام کے ایک بڑے حلقے میں مقبول ہیں۔ ان کی پارٹی کرپشن کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔ کیجری وال یہ کہتے ہوئے سیاست میں آئے تھے کہ وہ ملک کی موجودہ سیاست کو بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پر دہلی شراب پالیسی میں رشوت ستانی کے الزام کی وجہ سے ان کے اس دعوے کو دھچکہ لگا ہے اور بہت سے لوگ بالخصوص بی جے پی اور اس سے متاثر افراد کہنے لگے ہیں کہ کیجری وال کا وہ دعویٰ غلط تھا کیوں کہ وہ خود اسی کرپشن کے دلدل میں دھنس گئے ہیں جس کو ختم کرنے کے لیے وہ سیاست میں آئے تھے۔ یہ ان کے خلاف ایک بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اب بھی ایک مقبول سیاست داں ہیں اور بہت سے لوگ ان کی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ انھوں نے گجرات، گوا، پنجاب اور دہلی میں جب بھی کوئی پروگرام کیا تو اس میں لوگوں کی کافی بھیڑ اکٹھی ہوئی۔
اس وقت لوک سبھا کے لیے انتخابی مہم چل رہی ہے اور بی جے پی زور شور سے پرچار میں مصروف ہے۔ کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’’انڈیا‘‘ کی مہم بھی جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے مقابلے میں دوسری تمام پارٹیوں کی مہم ہلکی ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ادھر عام آدمی پارٹی کو بھی جس شدومد کے ساتھ انتخابی مہم چلانی چاہیےتھی وہ نہیں چلا پا رہی ہے۔ انتخابی مہم چلانے اور عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے جہاں بہت سے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہیں ایک کرشماتی قائد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن عام آدمی پارٹی میں اس وقت کوئی کرشماتی قائد نہیں رہ گیا ہے۔ کیجری وال اور سسودیا اندر ہیں۔ اگر کیجری وال باہر ہوتے تو عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم کا رنگ کچھ اور ہوتا۔ لے دے کے سنجے سنگھ ہیں جو حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ پارٹی کے باقی لیڈروں کو نہ تو کجری وال کی طرح مقبولیت حاصل ہے اور نہ ہی وہ تقریری صلاحیتوں سے اس طرح لیس ہیں۔ دہلی کے وزرا سوربھ بھاردواج اور آتشی پارٹی کی سرگرمیاں چلا رہے ہیں۔ لیکن ان کو حکومت کا کام کاج بھی دیکھنا ہے۔ راگھو چڈھا شادی کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ شاید ان کو بھی گرفتاری کا ڈر ستا رہا ہوگا جس کی وجہ سے وہ سیاسی منظرنامے سے غائب ہیں۔
عام آدمی پارٹی کو اصل محنت دہلی اور پنجاب میں کرنی ہے۔ دہلی میں 25 مئی کو پولنگ ہونی ہے۔ یہاں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان اتحاد ہے۔ یہاں لوک سبھا کی سات نشستیں ہیں۔ عام آدمی پارٹی چار پر اور کانگریس تین پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ حالانکہ نگریس میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے سلسلے میں اختلاف رائے رہا ہے۔ ایک گروپ اس سے ہاتھ ملانے کے حق میں تھا تو دوسرا گروپ مخالف۔ بہرحال دونوں میں انتخابی اتحاد ہو گیا۔ چوں کہ ابھی دہلی میں پولنگ میں وقت ہے اس لیے کوئی خاص مہم نہیں چل رہی ہے۔ کانگریس کو عام آدمی پارٹی کے مقابلے کم محنت کرنی ہے کیوں کہ اسے تین ہی حلقے ملے ہیں۔ جب کہ عام آدمی پارٹی کو اس کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کیجری وال کی گرفتاری کا پارٹی کی انتخابی مہم پر اثر پڑے گا اور وہ جس شدت کے ساتھ پرچار کرنا چاہتی تھی نہیں کر پائے گی۔ حکومت بھی یہی چاہتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے پاس لیڈروں کی کمی ہے۔ یوں تو متعدد لیڈرس ہیں لیکن عوام جن چہروں کو پہچانتے ہیں ان کی تعداد کم ہے۔ لے دے کر سوربھ بھاردواج، سنجے سنگھ، آتشی، گوپال رائے، راگھو چڈھا وغیرہ ہی ہیں۔ دہلی حکومت کے ایک وزیر راج کمار چوہان نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کا الزام ہے کہ ایک سازش کے تحت اور دباؤ ڈلوا کر ان سے استعفیٰ لیا گیا۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو ان کے استعفے سے پارٹی کو کچھ نہ کچھ تو نقصان ہوگا ہی۔
ادھر بی جے پی دہلی میں اپنا کھویا ہوا وقار واپس پاناچاہتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مہم سب سے زیادہ تیز ہو۔ اس کے لیے یہ کام آسان ہے۔ اس کے پاس افرادی قوت بھی ہے، وسائل بھی ہیں اور حکومت کا ساتھ بھی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں دہلی میں وزیر اعظم سمیت بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کی مہم شروع ہو جائے گی۔ اس کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران کیجری وال اور عام آدمی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف الزامات کی جھڑی لگائی جائے گی۔ کیجری وال کو بدنام کرنے کے لیے اسی طرح جھوٹ کا سہارا لیا جا سکتا ہے جس طرح کانگریس کے خلاف جھوٹ کا سہارا لیا گیا ہے۔ بی جے پی مبینہ شراب اسکینڈل میں رشوت خوری کا ڈنکا بجائے گی اور کیجری وال کو ایک بدعنوان لیڈر اور عام آدمی پارٹی کو ایک بدعنوان پارٹی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔ قارئین کو معلوم ہے کہ حکومت بی جے پی کو کامیاب کرانے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کو بدعنوان ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیے اس نے اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاری کی مہم چلا رکھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی بدعنوان لیڈر بی جے پی میں شامل ہو جائے تو اسے پاک صاف مان لیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی بند کر دی جاتی ہے۔ اس لیے دہلی میں انتخابی مہم کے دوران جب بی جے پی عام آدمی پارٹی کو ایک بدعنوان پارٹی اور کیجری وال کو ایک بدعنوان لیڈر بنا کر پیش کرے گی تو اس کا جواب دینے کے لیے نہ تو کیجری وال ہوں گے اور نہ ہی منیش سسودیا۔ سسودیا بھلے ہی اندر رہتے لیکن اگر کیجری وال باہر ہوتے تو وہ نہ صرف یہ کہ بی جے پی کے پروپیگنڈے کی ہوا نکالتے بلکہ اس کی بدعنوانیوں کی کہانی بھی عوام کو سناتے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ کیجری وال کی گرفتاری کا عام آدمی پارٹی کی انتخابی ہم پر منفی اثر پڑے گا۔
پنجاب میں بھی یہی ہونے والا ہے۔ وہاں لوک سبھا کی 13 سیٹیں ہیں اور وہاں یکم جون کو یعنی بالکل آخری مرحلے میں پولنگ ہوگی۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ اس نے کانگریس سے حکومت چھینی ہے۔ کانگریس سے پہلے وہاں بی جے پی اور اکالی دل کی مخلوط حکومت تھی۔ لیکن اب اکالی دل این ڈی اے سے الگ ہو گیا ہے جس کا نقصان بی جے پی کو ہونے والا ہے۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر پنجاب میں کامیاب ہونا چاہتی ہے۔ جب کہ عام آدمی پارٹی اپنی حکومت کا فائدہ آٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نشستوں پر جیتنا چاہتی ہے۔ وہاں عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں انتخابی اتحاد نہیں ہو سکا ہے۔ پنجاب کے وزیر علیٰ بھگونت مان گو کہ عوام میں مقبول ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے کہ کیجری وال۔ وہاں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کا ایک دوسرے کے مقابل کھڑا ہونا بھی بی جے پی کے حق میں جائے گا۔ بی جے پی کی جانب سے بھگونت مان کے خلاف الزامات کی جھڑی لگائی جائے گی بلکہ جس طرح کیجری وال کی کردار کشی کی جا رہی ہے اسی طرح ان کی بھی کی جائے گی۔ اب ان کی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ بی جے پی کے پروپیگنڈے کا جواب کیسے دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اروند کیجری وال کی گرفتاری سے عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم پر اثر پڑے گا اور جس زور شور سے اسے مہم چلانی چاہیے اس طرح نہیں چلا پائے گی۔ گویا حکومت عام آدمی پارٹی کو جو نقصان پہنچانا چاہتی تھی اس میں وہ کسی حد تک ضرور کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات انتقامی حربے الٹے پڑ جاتے ہیں اور تلوار اپنے چلانے والے کا ہی گلا کاٹ دیتی ہے۔ اگر عام آدمی پارٹی انتخابی مہم میں خود کو مظلوم ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی اور یہ بات عوام کی سمجھ میں آگئی کہ سسودیا، کیجری وال اور دوسرے لیڈروں کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کیا گیا ہے اور یہ گرفتاریاں سیاسی بدنیتی کے تحت ہیں تو اس کا بی جے پی پر لٹا اثر پڑ سکتا ہے اور عوام عام آدمی پارٹی کو ایک مظلوم پارٹی اور کیجری وال کو ایک مظلوم سیاست داں سمجھ کر ان کی حمایت کریں گے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت کا داؤ الٹا پڑ سکتا ہے اور بی جے پی کو فائدہ کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔