نور اللہ جاوید
پانچ سو دن کوئی کم نہیں ہوتے ہیں ،اتنے عرصے میں اگر کسی ریاست میں امن قائم نہیں ہوتا ہے تو یقینا یہ ریاست اور مرکز دونوں کی بین ناکامی ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ دونوں یعنی مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس ناکامی کو قبول کرنےکو تیار نہیں ہے۔مودی حکومت 3.0کے سو دن مکمل ہونے پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا منی پور میں حالات معمول آچکے ہیں ، اور طویل مدتی امن کے قیام کیلئے کوششیں جاری ہیں ۔تاہم امت شاہ کے دعوؤں کے باوجود منی پور میں خلفشار جاری ہے۔حالات معمول پر آنے کے کوئی آثار نہیں ہے۔ریاست بدستور تقسیم ہے ۔ تقریباً70ہزارافرادگزشتہ 17 مہینوں سے ریلیف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ابھی بھی ان کے اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ان میں سے 45ہزارکوکی ہیں۔ ان میں سے اکثریت اب بھی ریلیف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ عام ہالوں میں رہتے ہیں جن میں کپڑوں اور ترپالوں کی تقسیم ہوتی ہے۔ سخت سردیوں میں بھی پتلے گدوں پر سوتے ہیں۔ کیمپوں میں صفائی ستھرائی، خوراک، بچوں کی دیکھ بھال، طبی امداد کے حالات سب ناگفتہ بہ ہیں۔سینکڑوں عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کی گئی ہے۔ وادی اور پہاڑیوں دونوں کو نسلی طور پرایک دوسرے کیلئے اجنبی کردیا گیا ہے ۔ وادی اور پہاڑیوں کے درمیان کی اس قدر مضبوط سرحدیں قائم کردی گئی ہیں کہ اس طرح کی سرحدیں دو دشمن ممالک کے درمیان بھی بہت کم ہوتی ہیں ۔دونوں برادریوں کی حفاظت مختلف سیکورٹی فورسز کے ذریعہ کی جارہی ہیں ۔ آسام رائفلزکے جوان کوکی کی حفاظت کرنے پر معمور ہیں اور منی پور پولیس جو میتی کی حفاظت کرتی ہے ، کے مابین سات چیک پوسٹ قائم کی گئی ہیں ۔
3مئی 2023میں تنازع پھوٹنے کے بعدسے اب تک منی پور کی صورت حال پرسینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم کی ایک رپورٹ جسے عرفان انجینئر اور نیہا دبھادے نے مرتب کیا ہے، تفصیل سےروشنی ڈالتی ہے۔اس رپورٹ میں منی پور کی تاریخی اور عصری چیلنجوں پر محتاط تجزیہ کرنے کے ساتھ میا نمار کی سرحد سے متصل ریاست کی انتہائی پیچیدہ صورت حال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ موجودہ صورت حال میں امن کی جلد واپسی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ 74صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں منی پور کی ڈیمو گرافی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔میتی، کوکی ، پنگل مسلم اور ناگا آبادی کے سماجی و معاشرتی تعلقات اور ماضی کی تلخیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے منی پور میں جاری تنازعات کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس رپورٹ کے اہم اقتباسات اس مضمون میں پیش کیے جائیں گے۔
ملک کے دوسرے حصوں کی طرح منی پور بہت ہی منفرد تاریخ کا حامل ہے اور موجودہ تنازعات کا تعلق بھی منی پور کی منفرد اور پیچیدہ تاریخ سے ہے۔منی پور میں تبت برمن اورمیتی کمیونٹی غالب گروپ ہیں۔ان کی آبادی میں حصہ داری53فیصد ہے۔ سیاسی اور اقتصادی طور پر بھی ا ن کا غلبہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر سرسبز وادی امپھال میں رہتے ہیں ۔مگر اتنی بڑی آبادی ریاست کے محض 10فیصد علاقے میں رہتی ہے۔میتی برادری کا دعویٰ ہے کہ منی پور سے ان کا تعلق 2000سال پرانا ہے۔ان کا تعلق دنیا کی طویل ترین سلطنتوں میں سے ایک ننگتھوجا سلطنت ہے ۔اس دورمیں منی پور کانام’’ کانگلی پاک ‘‘ تھا ۔1724میں اس خاندان کے بادشاہ ’میڈنگو پامہی با‘نے ہندو مت قبول کرلیا۔اس وقت ریاست کا نام تبدیل کرکے منی پور کردیا گیا ۔منی پور 1891 سے اگست 1947 تک برطانوی راج کے تحت ایک شاہی ریاست تھی۔1949میں منی پورنے بھارت سے الحاق کرلیا ۔انگریزی استعمار کے خاتمے کے بعدمختصر وقفے کیلئے منی پور کے بادشاہ کی پہل پر ایشا میں اپنی نوعیت کا منفرد جمہوری آئینی ریاست قائم کی گئی ۔منی پور کی اسمبلی نے 1947 میں ایک ترقی پسند ریاستی آئین کا ایکٹ پاس کیا جس میں مقننہ میں بالترتیب 30، 18 اور 3 کے تناسب سے تین زمروں میں نمائندگی دی گئی۔ عمومی زمرہ میں وادی میں میتی لوگ تھے۔ پہاڑی برادریاں ناگا اور کوکی زومی تھیں (ہندوستانی آئین میں 34 درج فہرست قبائل کے طور پر درج ہیں)؛ محمدن یا مسلم میتی (جسے پنگل کہا جاتا ہے) کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 17ویں صدی میں سلہٹ سے ہجرت کر کے آئے تھے اور اب وہ ریاست کی آبادی کا9فیصد ہیں۔
1949میں منی پور کے بادشاہ بودھ چندرا نے بھارت سے الحاق کرلیا۔تاہم اس کیلئے انہوں نے نوتشکیل منی پور اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا اس لئے منی پور اسمبلی نے الحاق کی مخالفت میں قرارداد پاس کیا اورمنی پور کی قبائلیوں کا دعویٰ تھا کہ اس کی وجہ سے ان کی خودمختاری خطرے میں پڑجائے گی۔ان اقدامات نے اختلافات کو ہوادی اور پھرمنی پور میں مستقل سورش کی بنیاد رکھ دی۔مذکورہ رپورٹ میں منی پور کے عسکریت پسند گروپوں کے عروج کی وجوہات اور اس کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔1972میں منی پور کو مکمل ریاست کا درجہ دیا گیا۔اس کے باوجود حالات معمول پر نہیں آئے تو 1980 میں منی پور میں آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ نافذ کردیا گیا۔اس کی وجہ سے خلفشار کم ہونے کے بجائے بڑے پیمانے پر بدامنی شروع ہوگئی ۔1990کی دہائی میں کوکی اور ناگا کے درمیان خون ریز تصادم کے واقعات ہوئے اس کے نتیجے میں کوکیوں میں بھی علاحدگی پسندی ابھرنے لگی۔کوکی نیشنل فرنٹ کی تشکیل ہوئی۔علاحدہ کوکی اور ناگاکے درمیان طویل اختلافات رہے۔دونوں نے علاحدہ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا تاہم میتی اس کی مخالفت کرتی رہی۔میتی اور کوکی کے درمیان اختلافات ہمیشہ سے نہیں رہے ہیں ۔دونوں کے درمیان تعلقات ماضی میں بہتر بھی رہے ہیں ۔
تاہم دونوں برادریوں کے درمیان تلخ تعلقات کے پیچھے میتی کے ہندو اور کوکی کے عیسائی ہونا ایک بڑی وجہ رہی ہے۔اس تلخی کے پیچھے آرایس ایس اور سخت گیر ہندتو جماعتوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمی کا بہت ہی اہم رول رہا ہے۔آر ایس ایس کی سوچ ہے کہ ہندؤں کے علاوہ یہاں جتنی بھی برادریاں ہیں وہ سب غیر ملکی ہیں۔دوسرے یہ کہ کوکی اور ناگا برادری کو قبائل کا درجہ حاصل ہے۔میتی قبائلی علاقے میں زمین نہیں خرید سکتے ہیں۔اسی لئے بھی میتی کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی شیڈول ٹرائب کا درجہ دیا جائے اور اس اختلافات کی جڑ میں یہی مطالبہ ہے۔تاہم کوکی اور ناگا کو لگتا ہے کہ اگر میتی کو قبائلی کادرجہ مل گیا تو منی پور کے اقتصادیات پر حاوی میتی برادری ان کی زمین اور جنگل پر بھی قابض ہوجائیں گے۔3مئی 2023کو تشدد کا جو سلسلہ شروع ہوااس کے پیچھے یہی وجہ تھی۔تاہم حالیہ برسوں میں میتی برادری بالخصوص منی پور کے وزیر اعلیٰ این برین سنگھ کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ میانمار سے بڑی تعداد میں کوکی برادری آرہی ہے ۔ کوکی جنگلوں پر قبضہ کررہے ہیں اور منشیات کی کھیتی کررہے ہیں۔حالاں کہ ں کہ 1901 سے 2011 تک کی دس سالہ مردم شماری میں غیر ناگا قبائلی آبادی میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا ہے ۔ اسی لیے کو کی لوگوں کے منی پور میں پردیسی ہونے کا دعویٰ ایک صریح جھوٹ ہے۔آسام کے طرز پر منی پور میں بھی این آر سی کا مطالبہ بی جے پی اور آرایس ایس کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ کوکی علاقے میں نئے گاؤں کیوں آباد ہورہے ہیں اس کا جواب کوکی اس طرح دیتے ہیں ہے کہ کوکی قبائلی سردار زراعت میں وسعت لانے کیلئے نئے گاؤں آباد کررہے ہیں تاکہ ان کے بچوں کا بہتر مستقبل ہوسکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوکیوں کے جنگلوں پرقبضہ کرنےاور منشیات کی زراعت کےخلاف ریاستی حکومت کے کریک ڈاؤن کیا گیا۔تاہم اس سوال پر کہ کیا واقعی کوکی قبائلی منشیات کا کاروبار کرتےہیں ۔اس رپورٹ میں سابق اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، برندا تھوناؤجم کے سنسنی خیز دعوؤں کا ذکر کیا گیاہے ۔برندا تھوناؤجم کہتے ہیں کہ منی پور میں منشیات کی کاشت کوکی نہیں بلکہ ریاست کے بااثر عناصر کرتے ہیں ۔ان عناصر کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔سابق پو لس سپرنڈنٹ کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ خود پوست کی کاشت میں سب سے بڑے سرمایہ کار ہیں۔ رپورٹ کے مصنفین سے کہتے ہیں کہ ’’وزیر اعلیٰ منشیات کے مالک ہیں جن کے پوست کی صنعت میں اپنے مفادات ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ’’نہ صرف وزیراعلیٰ بلکہ مرکزی وزیر امت شاہ کا بیٹا بھی پوست کی صنعت میں ملوث ہے… وزیراعلیٰ کی دوسری بیوی جو ناگا ہے اور ٹنڈیل کی ایم ایل اے بھی پوست کی صنعت میں سرگرم ہے…‘‘۔تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق پولس آفیسر کے دعوؤں کی وہ تصدیق نہیں کرتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ منشیات کی کاشت کیلئے صرف کوکی کو مورد الزام ٹھہرانا کسی بھی درجے میں منصفانہ نہیں ہے۔یہ کاشت ریاستی حکومت کی سرپرستی کے بغیر نہیں ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ اس بات کے بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ سرحد پار یعنی میانمار میں منشیات کی اسمگلنگ میں کوکیوں کا کردار ہے۔درحقیقت امپھال، دہلی اور میانمار میں بے پناہ دولت اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کی سرپرستی سے ہی بین الاقوامی سطح پر منشیات کی صنعت پروان چڑھ رہی ہے۔
اس ملک کی اقلیتوں کو بے اثر کرنے کی آر ایس ایس کی پرانی پالیسی رہی ہے۔2014کے بعد اس پر بہت ہی منصوبے بند طریقے سے پورے ملک میں عمل کیا گیا ہے۔منی پور کی آبادی میں 40فیصد حصہ داری والے کوکی کو سیاسی طور پر بے اثر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔اس منصوبے کے تحت میتی برادری کو پولرائز کرنے کیلئے کوکیوں کے خلاف الزامات اور کارروائی کی ایک سیریز چلائی گئی ۔خود مختار پہاڑی کونسلوں کے اختیارات سلب کئے گئے۔حالیہ دنوں میں منی پور میں کئی آڈیو کلپ سامنے آئے ہیں اور ان آڈیو کلپ کو منی پور میں تنازعات کی جانچ کررہی اعلیٰ سطحی کمیٹی کو پیش کیا گیا ہے۔ان آڈیوکلپ میں مبینہ طور پر برین سنگھ کی آواز ہے جس میں وہ کھلے عام میتی مسلح گروپ کی حمایت کی بات کررہے ہیں ۔ وہ امت شاہ کے حوالے سے کہہ رہے ہیں ان کی ہدایت کے باوجود انہوں نے پانچ عسکریت پسندوں کو این آئی اے حوالے کرنے سے منع کردیا اور صرف دو افراد کو حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں۔بیرن سنگھ کوکی کے خلاف کس قدر پروپیگنڈہ کرتے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دفتر نے 16 ستمبر کو ایک انٹیلی جنس رپورٹ شیئر کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ میانمار سے 900 سے زیادہ ’کوکی عسکریت پسند‘ ریاست میں داخل ہوئے ہیں۔تاہم چنددنوں بعد ہی منی پور کے سیکورٹی ایڈوائزر کلدیپ سنگھ اور پولیس کے ڈائریکٹر جنرل راجیو سنگھ نے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کے دفتر سے جاری رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی زمینی سطح پر کوئی تصدیق نہیں کی جاسکتی ہے۔اس بیان کے بعد وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کے دفتر نے اپنے پہلے والے ان پٹ کو واپس لے لیا۔
رپورٹ میں آر ایس ایس اور میتی کے عسکریت پسند گروپ آرام بائی ٹینگول کے درمیان تعلقات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔منی پور کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے سابق ممبر پارلیمنٹ لیشمبا سناجواباپر ’’آرام بائی ٹینگول‘‘ کی سرپرستی کاالزام ہے۔آر ایس ایس اور آرام بائی ٹینگوئل دونوں ایک دوسرے کی حمایت اور مدد کرتے رہے ہیں۔’’آرام بائی ٹینگوئل‘‘کوکی عیسائی کے خلاف سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ میتی عیسائی اور میتی لبرلز کے خلاف بھی محاذ آرائی کرتے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جو ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں ان میں وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ عسکریت تنظیموں سے وابستہ افراد کی مدد کرنے کا الزام ہے۔’’ آرام بائی ٹینگوئل‘‘ کے حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اور وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’آرام بائی ٹینگول ‘‘کا دعویٰ ہے کہ وہ سناما ازم کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔دراصل یہ میتیوں کی بالادستی کا ہی نظریہ ہے۔’’آرمبائی ٹینگول‘‘سے وابستہ ارکان سیاہ ٹی شرٹ پہنتے ہیں ۔جس میں کوکی کے خلاف نفرت انگیز نعرے ہوتے ہیں ۔آرمبائی ٹینگوئل کے اراکان پر ہی کوکی خواتین کےساتھ زیادتی اوربرہنہ پریڈ کرنے کا بھی الزام ہے ۔ریاستی حکومت کے ساتھ آرام بائی ٹینگول کی قریبی شراکت داری کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست اس کے ساتھ کھڑی رہی جب اس کے ارکان نے ریاستی اسلحہ خانے سے تقریباً 4000 جدید ہتھیار لوٹ لیے تھے۔
جواہر لعل یونیورسٹی دہلی کے ایسو سی ایٹ پروفیسر اور کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ بمول اکوئیجام نے حال ہی میں انگریزی ویب سائٹ دی وائر جو انٹرویو دیا ہے اس کو پڑھنے کےبعد حقیقی صورت حال کا علم ہوتا ہے کہ 500دن بعد بھی منی پور میں امن قائم کیوں نہیں ہورہا ہے؟ بمول اکوئیجام کی شناخت صرف یہ نہیں ہے کہ وہ سیاست داں ہیں اور کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ہیں بلکہ وہ دانشور اور مصنف ہیں جو شمال مشرق ریاستوں کی سیاست سے بخوبی واقف ہیں۔ان کا الزام ہے کہ منی پور میں بی جے پی حکومت نےخود کو میتی کا نجات دہندہ قرار دے کر کوکی کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنایا ہے۔ان کا کہناہے کہ سیاسی فائدے کیلئے نسلی تشدد کو ہوا دی جارہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے کوکی کے مسلح گروپ کی حمایت حاصل کی تھی اس وعدے کے ساتھ کہ بی جے پی علاحدہ ریاست کی تشکیل کرے گی۔
بمول اکوئیجامنی پور کے تشدد کے پیچھے ایک اور بھی گہری جغرافیائی سیاسی حکمت عملی سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ میں نے پہلے دن سے محسوس کیا ہے کہ بحران کی ایک جیو اسٹریٹجک جہت ہے۔ کوکی مسلح گروپ کا بنگلہ دیش اور میانمار میں اثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے استعمال کیاجاتا رہا ہے۔ اکوئیج کا دعویٰ ہے کہ منی پور میں تشدد ایک وسیع تر اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ ایک پلے بک جس پر فرقہ پرست طاقتیں برسوں سے منی پور کے خیال کو تباہ کرنے اور اسٹریٹجک اور فرقہ وارانہ منصوبوں کی پیروی کر رہے ہیں۔کیوں کہ کوئی بھی امن کی بات نہیں کررہا ہے ۔اکوئیجام سوال کرتے ہیں کہ منی پور میں اس وقت پولیس سمیت 60ہزارسے زیادہ سیکورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ اس کے باوجود70ہزار افراد اپنے گھروں سے کیسے محروم ہوگئے؟ آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ کے علاوہ، سی آر پی سی کا سیکشن 131 ہے، جو انہیں حکومتی اجازت کے بغیرکارروائی کرنے کا اختیاردیتا ہے۔اس کے باوجود لوگوں کی موت ہورہی ہے اور گھرلوٹے جارہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں لاپرواہی برتی گئی ہے۔سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم اپنی رپورٹ کے اختتام میں منی پور میں ا من بحالی کیلئے چند اہم مشورے بھی دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق منی پور میں امن کی بحالی کے عمل کے لیے ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کو مستعفی ہوجائیں۔کیوں کہ دونوں برادریوں کا وزیر اعلیٰ پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے، اور وزیر اعظم کی اس سانحہ پر مسلسل خاموشی سے مایوس ہیں۔ وزیر اعلیٰ سنگھ کی نفرت انگیز تقاریر کا خاتمہ ہونا چاہیے، اور ریاستی انتظامیہ کو مزید کسی بھی نفرت انگیز تقریر پر سزا دینی چاہیے۔
ایک امن کمیٹی قائم کی جائے جو کمیونٹیز کے درمیان بات چیت پر مشتمل امن عمل شروع کرے۔ اس کے ساتھ انصاف کے پہیے کو حرکت میں لانا چاہیے۔ قتل، اجتماعی عصمت دری، آتش زنی، گھروں کی تباہی اور مزارات کی بے حرمتی کے ذمہ داروں کو سزا دینی چاہیے۔لیکن شاید سب سے اہم قدم یہ اٹھانے کی ضرورت ہے کہ فوری طور پر تمام عسکریت پسند گروپوں کو غیر مسلح کردیا جائے۔چاہے اس عسکریت پسند کو ریاست کی سرپرستی حاصل ہو یا نہیں ۔دونوں برادریوں کے مسلح عسکریت پسندوں، خاص طور پر آرام بائی ٹینگول اور میٹی لیپون نے خوف کی فضا قائم کررکھی ہے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ تمام نسلی گروہوں کے لیے منی پور کو ایک مشترکہ وطن کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے ۔جہاں ہر گروہ کو مساوی حقوق اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔اسی اجتماعی تفہیم کے ذریعہ ہی منی پور میں پائیدار امن قائم کیا جاسکتا ہے۔