سنگھ اور بی جے پی کی سربراہی میں ہندو اکثریتی سماج کے ہندوتو وادی طبقے کے درمیان دیس، دنیا اور دھرم کی ایک خاص طرح کی تصویر بنانے کے لئے ان تھک جتن کیا جا رہا ہے لیکن اپنی من پسند تصویر بنانے کی تمام تر کوششیں رائیگاں ہی چلی گئی ہیں۔ ہندوتو کے نام پر اکثریتی سماج کی ملک کی واحد تہذیب کے تصور کے تحت ایک متحدہ تصویر بنانے کی بار بار کوشش کی جاتی ہے لیکن متحدہ نظریاتی اساس کے فقدان کے سبب کسی نہ کسی معاملے میں بات بنتے بنتے، اجتماعی سماج کی تشکیل کے دوران بگڑ کر پھر وہیں پہنچ جاتی ہے، جہاں سے شروع کی گئی تھی۔ برہمن وادی ہندو سماج ہزار کوششیں ہندوتو اور ہندو، ہندی اور ہندستان کے عنوان سے کرلے لیکن اونچ نیچ کی سوچ پر مبنی ذات پات پر قائم چار طبقاتی نظام اور ورن آشرم کی بنیاد جڑ میں ہونے کی وجہ سے برہمن، کشتری، ویش اور شودر، پچھڑا، اتی پچھڑا، چھوت اچھوت کی باتیں، ہندو یک جہتی اور اتحاد کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔
ہندو سماج پر طبقاتی نظام اس قدر گہرائی سے پیوست ہے اور اس پر مذہب کی تائید اتنی مضبوطی سے اپنا پنجہ گاڑ چکی ہے کہ اس کی تردید کی جرأت و ہمت قدیم عہد وسطی سے لے کر عہد جدید تک کے بڑے بڑے مصلحین بھی نہیں کر سکے۔ راجا رام موہن رائے، سوامی دیانند سرسوتی، سوامی وویکا نند، گاندھی جی وغیرہ نے بھی مختلف قسم کی تاویلیں کر کے چار طبقاتی اور ورن آشرم پر مبنی نظام کی تائید و تحسین کر کے اس کو مزید جواز ہی فراہم کیا ہے۔ آر ایس ایس کے دوسرے سنگھ سرسنچالک مادھو سدا شیو گرو گولولکر نے ذات پات کے نظام کی یہ کہہ کر تحسین کی کہ اس کی وجہ سے اسلام اور عیسائیت کوہندو سماج میں نفوذ میں کامیابی نہیں مل سکی۔ اشاعت اسلام کی رفتار ان علاقوں میں زیادہ تیز تھی جہاں بدھ مت کے اثرات کی وجہ سے ذات پر مبنی نظام کمزور اور ڈھیلا ہو گیا تھا۔ پنڈت دین دیال اپادھیاے نے گرو گولولکر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے چار طبقاتی نظام کو سماج کی ایکاتمتا (اتحاد ) کا خوب صورت نام و عنوان دے کر اسے ایک الگ ہی رنگ میں پیش کیا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ڈاکٹر امبیڈکر نے مذکورہ حضرات کی تمام تر تاویلات کو مسترد کرتے ہوئے طبقاتی بنیاد پر سماج کی تقسیم پر سخت اعتراض کیا ہے۔ اس سلسلے میں 22/جلدوں پر مشتمل ان کی کلیات امبیڈکر وانگمے میں مختلف عنوانات کے تحت خاصے تفصیلی بیانات اور تنقیدیں درج ہیں۔ اسی طرح جیوتی با پھولے، سوامی نائیکر پیری یار، سوامی اچھوتا نند، بابو جگدیو پرساد وغیرہ نے بھی ہندستانی تہذیب اورسناتن سنسکرتی کے نام پر برہمن واد اور منو واد کو ملک کے تمام باشندوں میں قبولیت دلانے کی کوششوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اسے بعد کے دلت اہل علم نے آگے بڑھاتے ہوئے کچھ ایسے نکات بھی پیش کئے جس نے ہندوتو وادی دانش وروں اور ہندو راشٹر کے حامی عناصر کے لئے مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔
معروف ہندی ادیب و دانشور کملیشور نے اپنی بہت ہی معروف تخلیق “کتنے پاکستان ” میں تفریق پسند عناصر پر حملہ کرتے ہوئے اپنے اصلی وطن کی تلاش کے عمل کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے برہمن واد پر مبنی دانش وری کے بوچڑ خانے کے اندرون کو بھی دکھانے کی کوشش کی۔ ہم نےاس کتاب کا پہلا اور 23وان اڈیشن بھی پڑھا ہے۔ کملیشور نے سماجی اونچ نیچ کے تناظرمیں رام چندر کے عہد میں ان کے ہاتھوں شمبھوک کےقتل کے نتیجے میں کالی آندھی سے سماج کے پیڑ پودوں کو بھیانک روپ میں ہلتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس پر لوگوں نے جس طرح توجہ دی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں اونچ نیچ اور ایک طبقے کی سماج پر اجارہ داری اور تفوق پسندی کی تہہ میں پوشیدہ ذہن و کردار کو جاننے وسمجھنے کا جذبہ کس تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ اس سے توجہ ہٹانے کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کے جاتے ہیں۔ اجودھیا کے انتخابی نتیجہ کو لے کر بی جے پی کے اندر ابھرے اختلافات اور کئی دیگر باتوں کے تناظر میں راہل گاندھی قابل توجہ بن رہے ہیں، اس سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے دکانوں اور ہوٹلوں وغیرہ پر نیم پلیٹ لگانے کا فرقہ وارانہ کارڈ کھیلا گیا ۔ بار بار ہندو سماج کے داخلی و خارجی تضادات کو دور کر کے اسے مثبت بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے مسلمانوں کی قابل نفرت انگیز اور مکروہ شبیہ پیش کر کے ہندو سماج میں منفی رجحان کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ برطانوی سامراج کی سامراجی مقاصد کے تحت وضع کردہ تاریخی مواد سے کام لے کر ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تکثیری معاشرے کی تنوع پسندی کو تسلسل کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی ایسی بے چہرہ تصویر بنائی جا رہی ہے جس کی شناخت تک مشکل ہوجائے گی۔ ملک میں ایسا دھند زدہ ماحول پیدا کیا جا رہا ہے جس نے دن اور رات کا فرق تک ختم کردیا ہے- بسا اوقات لوگوں کو لگتا ہے کہ آدھی رات میں بھوت پریت مر گھٹ کی ادھ جلی ہڈیوں سے گتھم گتھا ہیں۔ اس سے ڈر کر بہت سے لوگ جنت ارضی کی تلاش میں بحر مردار کے اس علاقہ میں پہنچ جاتے ہیں جہان قطار اندر قطار شجرہائے خبیثہ کھڑے ہیں۔ جہان کسی کا درخت کا پھل کھالینا تو دور محض چھو لینے سے ہی آدمی برہنہ ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سے لوگ گدھ کے جھنڈ میں تبدیل ہوگئے ہیں، جن کے مقدر میں مردار کھانا ہی لکھا ہے۔ ایسے افراد کس طرح اخلاقی اقدار پر سیاست و سماج کی تشکیل کر سکیں گے۔ جنت کے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھانے کے بعد احساس شرمندگی و ندامت کے نتیجے میں جب توبہ کا در وا ہو جاتا ہے تو آدمی ساتر لباس اور نیکی کی طرف فوری یا دیر سویر لوٹ آجاتا ہے۔ لیکن فرقہ پرستی کے ممنوعہ علاقے میں بس جانے والے لوگ واپس لوٹنے کے بجائے دوسروں کو بھی بند گلی کی طرف لے جارہے ہیں۔ مسلم راشٹریہ منچ کا کوئی بھی فرد مدارس، مساجد، مکانوں اور مزاروں کے انہدام پر منھ نہیں کھولتا اور اگر کبھی کھولتا بھی ہے تو اکثر اپنے ہی لوگوں کے خلاف- پورے ملک میں مسلمانوں کو مین اسٹریم سے الگ تھلگ کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ اس کو احساس محرومی و شکست و ریخت میں مبتلا رکھنے کے لیے آئے دن نئے نئے حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ملک کی راجدھانی دہلی سے لے کر ریاستی راجدھانیوں اور اہم مقامات پر رونما ہونے والے واقعات شہادت دے رہے ہیں کہ اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچی جارہی ہے۔ اسلامی آثار، معابد و ماثر پر ہندو و جینی معابد و ماثر ہونے کے دعوے کے ساتھ مختلف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے علاوہ، برق رفتار انہدامی کارروائیوں کے پس پشت کار فرما مقاصد و عزائم کو جاننا مشکل نہیں ہے۔ آر ایس ایس کی طرف سے بار بار کہا جاتا ہے کہ ہمیں تمام طریقہ ہائے عبادت تسلیم ہیں اور ہمارے نزدیک ملک کے تمام باشندے ہندو ہی ہیں لیکن رویہ اس کے برعکس ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس محض ایک جملہ ہے جو خفیہ عزائم پر پردہ ڈالنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔
سی اے اے قانون کے تحت ملک کے باشندوں میں مذہب و فرقہ کی بنیاد پر تفریق قطعی طور پرغیر آئینی قدم ہے۔ جن ممالک کی غیر مسلم اقلیتوں کو بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک کے نام پر بھارت کی شہریت دینے کی بات کہی جارہی ہے وہ دراصل اسرائیل نسلی پالیسی کو ملک میں نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ جس کے تحت دنیا کے تمام یہودیوں کو اسرائیل میں لانے کی کوشش کی گئی تھی- افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں سے کوئی بھی مسلم ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ وہاں کی غیر مسلم اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق و اختیارات کے معاملہ میں کسی بات کو ماننے سے انکار کر سکے۔ جب کہ پاکستان کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ انڈیا سے زیادہ ہم اپنی غیر مسلم اقلیتوں کی جان و مال اور حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں روز نامہ جنگ نے اپنے ایک اداریے میں اس تعلق سے کئی باتیں لکھی تھیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت دنیا کے تمام ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک میں اقلیتوں کی جان و مال اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں۔ مسلم ممالک چاہے وہ جمہوری وسیکولر ہوں یا بادشاہی نظام کے تابع ان کی آئینی و شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق و آزادی کا تحفظ کریں۔ اگر بھارت مسلم ممالک کی غیر مسلم اقلیتوں اور ان کے حقوق و اختیارات کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائے گا تو پوری دنیا کے مسلم اور غیر مسلم ممالک اس کی حمایت کریں گے۔ تاہم حکومت کو اپنے دامن پرلگے داغ دھبوں پر بھی تو نظر ڈالنی چاہیے- بنگلہ دیشی دراندازوں کے نام پر بھارت کے شہریوں کو غیر ملکی قرار دینے والی تمام سرگرمیاں پوری طرح فرقہ وارانہ ذہنیت کی پیداوار، ملک کی ترقی میں رکاوٹ اور عدم استحکام پیدا کرنے والی ہیں۔ بھارت ایک تکثیری سماج اور متنوع روایات کا حامل ملک ہے اور یہی اس کی اصل شناخت ہے۔ اس کے بر عکس فرقہ وارانہ سوچ کے تحت کسی بھی طرح کی تصویر کشی درست نہیں۔ یہ ملک کی تصویر بنانے کا عمل نہیں بلکہ اس کی تصویر بگاڑنے کا مجرمانہ عمل ہے۔ جس کی مزاحمت وطنی وابستگی رکھنے والے تمام ہندستانیوں کا قومی تقاضا و فریضہ ہے۔ اس کو ادا کرنے کی ہرشکل آئین کے دائرے میں ہو گی۔ ملک کی آزادی کی تحریک اور وقت پڑنے پر آزادی کو بچانے کی تحریک بھی ضروری ہے۔ اگر چہ تصویر بگاڑنے کی کوششوں کی زد میں تمام محنت کش طبقات، دلت، آدی واسی بھی ہیں تاہم مسلم اقلیت اور اس کی جان و مال، دینی ملی شناخت اور تہذیبی آثار اور معابد و ماثر، مدارس، مساجد، تاریخی عمارتیں، یادگاریں سب سے زیادہ زد پر ہیں۔ اسی کے پیش نظر مسلم قیادت، تنظیموں اور جماعتوں کی ذمہ داری دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسروں کے تہذیبی آثار فسطائی عناصر اور سرکاروں کے نشانے پر مسلم اقلیت کی بہ نسبت بہت کم ہیں۔ البتہ ملک کے کئی خطوں میں آدی واسیوں کے زر، جنگل اور زمین سرکار کے تعاون سے ملٹی نیشنل اور سرمایہ دار کمپنیوں کی زد میں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان، دیگر اقلیتیں، دلت، ادی باسی اور تمام انصاف پسند افراد و بہی خواہاں ملک، تصویر بگاڑنے کی ان کوششوں کے خلاف صف آراء ہوجائیں۔