لوک سبھا 2024کے الیکشن کے نتائج بعد لگ رہاتھا کہ گزشتہ دس سال سے جاری سیاسی اتھل پتھل، بیانیوں کی لڑائی اور ہندومسلم کشمکش کو بریک لگے گا لیکن سمودھان بچاؤ کے بیانیہ سے زخم خوردہ قوتیں مایوس ہوکر بیٹھنے کی بجائے اس کا تریاق ڈھونڈنے میں لگ گئی ہیں، جب کہ اپوزیشن اتحاد جزوی فتح کو مکمل سمجھ کر پاؤں پھیلاکر سوگیا ہے۔
ریاست کو 24/7 میں تبدیل کرنے والے بازی پلٹنے میں ماہر ہیں ۔ان کی صفوں سے ‘کٹیں گے تو بٹیں گے’ کا نعرہ اچھلا جو دوسری فیکٹری کے پروڈکٹ میں زیادہ کلچرڈ ہوکر ‘ایک ہیں تو سیف ہیں’کی شکل میں سلوگن بن گیا ،اس نے ہریانہ اور مہاراشٹر میں فتوحات دلا دیں۔ یہ سیاسی بیانیہ تھا مگر اس سے دوررس مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے تھے، ذات پات میں بٹے سماج کے لئے اور بھی تیز دوا کی ضرورت تھی۔ اسے تہذیبی و ثقافتی جارحیت سے صیقل کرنا تھا اس کے لئے آزمودہ نسخہ تاریخ کے جھولے سے نکالا گیا۔مسلمانوں کے مذہبی آثار و عبادت گاہوں میں مندر تلاش کرنے اوران پر قبضہ کرنے کی مہم، جس کا آغاز 1980سے ہوا تھا۔ اب یہ آگ پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔سنگھ کے سر سنچالک کی واضح ہدایات کے باوجود کئی سوسالہ مساجد، مزارات، خانقاہوں پر دعوے کئے جانے لگے۔ یہ مہم جو بابری مسجد سے شروع ہوئی تھی متھرا،کاشی سے ہوکر سنبھل،بدایوں، جونپور اجمیر، دارالعلوم دیوبند کے راستے دہلی کی جامع مسجد تک پہنچ گئی ہے۔ اور کہاں کہاں لال نشان لگیں گے کہا نہیں جاسکتا۔ فہرست میں تین نہیں تین ہزار مسجدیں ہیں۔
عام لوگوں کے ذہنوں میں کتنا زہر اتاراجارہا ہے اسے سیاسی لیڈروں کے بیانات سے با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ اب تو عدالتوں کے جج بھی وہی زبان بول رہے ہیں جو کسی عام سے ہندوتو وادی کے منھ سے نکلتے ہیں۔ شمالی ہندوستان کے اکثریتی فرقہ کے لوگوں کو “کھودو ابھیان” پر لگادیا ہے۔ نچلی عدالتیں آستھا اور جذبات’ کے آبگینوں کا پورا احترام وخیال رکھ رہی ہیں۔ ہندوستانی سیاست اور عدلیہ نے ایک بھسماسورپیدا کیا ہے جو معاشرے میں مذہبی تقسیم کو گہرا کر رہا ہے۔ نفرت وتشدد کی کھیتی کو زہر کا پانی دیتے وقت تصویر کے اس رخ کو چھپا لیا جاتا ہے کہ “ہندو راجہ ہرش دیو نے دیوتپٹانائک نام کا ایک افسر مقرر کیا تھا، جس کا کام مندروں کی مورتیوں کو اکھاڑنا اور ان کے نیچے دبی دولت کو لوٹنا تھا۔ یہ کلہن کی ‘راجترنگینی’ میں کہا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی بھلادیا جاتا ہے کہ مراٹھا بادشاہ نے سری رنگا پٹنم میں ایک مندر کو تباہ کیا تھا۔ قرون وسطیٰ میں اس تناظر میں مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ مذہبی مقامات کی لوٹ مار اور مسماری کے پیچھے کوئی مذہبی وجوہات نہیں تھیں۔ اس کے برعکس موریہ دور کے خاتمے کے بعد بدھ مت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بدھ خانقاہوں (مٹھوں) کو تباہ کر دیا گیا۔ حال ہی میں اس کی بازگشت پسماندہ طبقے کے ایک لیڈر سوامی پرساد موریہ کے بیان میں سنائی دی جن کا کہنا ہے :
“اگرگڑھے مردے اکھاڑے جائیں گے تو مسجدوں میں مندر تلاش کرنے والوں کو بہت مہنگا پڑے گا، اس لیے ہر مسجد میں مندروں کی تلاش بند کرو ورنہ لوگ مندروں میں بودھ مٹھوں کی تلاش شروع کر دیں گے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بدری ناتھ، کیدارناتھ، جگن ناتھ پوری، رامیشورم سبھی بدھ مت کی خانقاہیں( مٹھ ) تھیں، لیکن یہ سب ہندو مندر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو معاملہ یہیں نہیں رکے گا، آگے بھی جائے گا۔موریہ نے پوچھا کہ اشوک سمراٹ نے بدھ مت کے 84 ہزار ستون بنائے تھے، وہ کہاں گئے؟ یعنی ان لوگوں نے انہیں گرا کر مندر بنائے ہیں، اس لیے اگر کسی مسجد میں مندر دریافت ہوا تو مندر میں بدھ مت کے مٹھ بھی دریافت ہوں گے”۔
بات یہیں نہیں رکی ڈاکٹر امبیڈکر کے پڑپوتے ،سنودھان سرکشا آندولن کے سکریٹری اور انڈین بدھسٹ سوسائٹی کے قومی صدر راج رتن امبیڈکر نے جے پور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وارننگ دی کہ “اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو بدھسٹ سوسائٹی آف انڈیا بھی پیچھے نہیں رہے گی اور ایسی صورت حال میں بدھسٹ سوسائٹی آف انڈیا ان بودھ وہاروں کی واپسی کا مطالبہ کرے گی جن پر ہندو بناکر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ میں نے اس طرح کی دو عرضیاں پہلے ہی تیار کر رکھی ہیں۔ میری پہلی عرضی تروپتی بالاجی مندر پر ہے اور دوسری سومناتھ مندر پر ہے۔“ کیا بدھسٹ واقعی ایسا کریں گے’۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ ہندوتووادی طاقتوں پر کاری ضرب ہوگی اور ملک کی سیاست کا رخ نوے ڈگری زاویے پر گھوم جائے گا۔
یہ پیش منظر کا جائزہ تھا اب اس کا اصل پس منظر جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر این آرسی کے نفاذ ، نسل کشی کی دھمکیوں کی بھگوا مہم کے دوران اچانک یہ معاملہ کہاں سے آگیا کہ ہر شخص کاندھے پر ایک پھاوڑا،کسی پرانی مسجد کا نقشہ اور شیو لنگ کی تلاش کا سودا سر میں لیے گھوم رہا ہے۔ ہندو راشٹرواد کی پاٹھ شالہ کے نصاب میں اس بیانیہ کی لگاتار گردان کے تار کہاں سے ملتے ہیں؟آخر اس کی جڑ میں کیا ہے اور کیوں ہے ؟خوف و نفرت کے خمیر سے تیار ‘ایک ہیں تو سیف ہیں’ کے لئے مسجدوں پر قبضہ اور اپنی ‘وراثت ‘کو عدلیہ کے زور سے چھین لینے کی سنک بھی کسی خوف کا ہی نتیجہ ہے؟ اور 80فیصد کو 20 فیصد کے فرضی خطروں سے ڈرانے کا کھیل کیا ہے ؟ مسلمان ہی اس کا آسان چارہ کیوں بن رہا ہے ؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے تہہ میں جانے کی ضرورت ہے۔
دراصل اس حکمت عملی کے کئی سر ہیں اور اس کی بنیاد جات پر مبنی مردم شماری اور منڈل بنام کمنڈل کی سیاست کا ایکسٹینشن ہے، جس میں مسلمان سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فسطائی راشٹرواد کو نفرت کی غذا سے پروان چڑھایا جاتا ہے اور اس کے لئے ایک دشمن کا ہونا ضروری ہے۔ جیسے ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف فضا بنائی تھی تاکہ انہیں سزا دینے کا جواز پیدا ہوسکے۔ ہندوتو راشٹرواد اسی راستے پر چل رہا ہے۔ مگر سمودھان اور ذات پر مبنی مردم شماری کے نعروں کے اس حکمت عملی میں سوراخ کردیا گیا اور ہندوایکتا کے نعرہ کی گونج بھی مدھم پڑگئی تھی۔ تصور کیجئے اگر ہندوؤں کے پسماندہ طبقات آبادی کے تناسب سے اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اقتدار میں حصے داری کے دعوے دار بن جائیں تو برہمنیت کے اقتدار اعلیٰ کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتے تھے۔ ماضی میں بھی منڈل تحریک کے نتیجہ میں وہ کمزور ہوگئے تھے۔ مرکز سے لے کر ریاستوں تک اقتدار کی باگ ڈور اوبی سی و دلتوں کے ہاتھ میں آگئی تھی جس کو کانشی رام جیسے لیڈروں نے اور مضبوط کردیا تھا ۔ یوپی تیس سال تک ان سے دور چلاگیا اور بہار میں آج بھی نکیل اسی طبقہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا آغاز مخلوط حکومتوں کے دور سے ہوا۔ ویسے تو مرکز میں ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کی سرکار اس کی پہلی مثال ہے۔ مگر یہ عبوری دور تھا کیوں کہ کانگریس جلد ہی اکثریت کے ساتھ لوٹ آئی۔ پھر وی پی سنگھ کے زمانہ سے 2013 تک یہی دور رہا ۔گرچہ آج بھی کہنے کو تو مرکز میں مخلوط حکومت ہے مگر بی جے پی نے اپنے حلیفوں کی ای ڈی ،سی بی آئی وغیرہ کی مدد سے مشکیں کس رکھی ہیں۔ مہاراشٹر میں مراٹھا سیاست کے کس بل نکال دیے ہیں۔ ہریانہ میں جاٹوں کے غلبہ والی سیاست کا جنازہ نکال دیا گیا اور یوپی میں او بی سی کی کمر پر سوار ہوکر وہ اقتدار کی ملائی کھارہی ہے۔ یعنی منڈل سیاست کے نتیجہ میں لالو،آنجہانی ملائم سنگھ یادو، نتیش، مایاوتی وغیرہ پیدا ہوئے جو آج بھی کہیں نہ کہیں ہندوتو راشٹرواد کے لئے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں لیکن کسی کو کرپشن تو کسی کو دوسرے معاملات میں انگیج کرکے کمزور کردیا گیا جب کہ نئی مضبوط قیادت پیدا نہیں ہورہی ہے۔ گزشتہ لو ک سبھا الیکشن میں اکھلیش نے پی ڈی اے کا تجربہ کرکے بی جے پی کو دھول چٹا دی اوراترپردیش کی آدھی سے زیادہ سیٹوں پر قبضہ کرلیا۔ دولڑکوں کی جوڑی ہٹ رہی اور اس نے بی جے پی کو مرکز میں اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا۔مودی سرکار کو پہلی بار خود کو این ڈی اے سرکار کہنا پڑا۔اس سے ہندوتووادی طاقتوں کے کان کھڑے ہوگئے۔
2027 میں سنگھ کی مرکزی لیباریٹری کے ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ ظاہر ہے اگر یوپی مٹھی میں نہ رہے تو پھر 2029 میں مرکز کیسے رہ پائے گا۔ چنانچہ ناراضگی کا ڈھونگ کرنے والی آرایس ایس اور بی جے پی کیرل میں سر جوڑ کر بیٹھے۔ مفاہمت کا مژدہ سنایا ،اوبی سی اور دلتوں کو اپنے پالے میں لانے کا منصوبہ بنایا گیا اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کی چادر اتار پھینکی گئی۔ ،ہمیں یاد ہے کہ 2024 کی انتخابی مہم میں نفرتی بھاشنوں کے ساتھ شریعت کے لاگو ہوجانے، ہندووں کی جائیداد یہاں تک کہ منگل سوتر تک مسلمانوں کے پاس چلے جانے کا خوف، پی ایم کی سطح سے پھیلایا گیا۔ مگر سمودھان بچاؤ اور ریزرویشن چھن جانے کا خوف اس پر حاوی رہا۔ رام مندر بن جانے کا ایشو ہوا میں تحلیل ہوگیا یعنی منڈل بنام کمنڈل کی لڑائی میں منڈل کافی حد تک کام کرگیا مگر اتنا بھی نہیں جس کی کہ توقع کی جارہی تھی۔ اس مہم میں مسلمان نے جی جان لگادی اور منڈل وادی طاقتوں کا ساتھ دیا۔ یہ پیغام بہت دور تک چلاگیا ،بی جے پی اپنے دم پر ماضی کے دوچناو کی طرح اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔اس صورت حال نے ہندوتووادی طاقتوں کو بے چین کردیا اور اتر پردیش کے ضمنی چناؤ سے پہلے بہرائچ اور فوری بعد سنبھل میں جو کچھ ہوا اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
غورکرنے کی بات ہےکہ لوک سبھا الیکشن کے فوری بعد متھرا، کاشی سے آگے بڑھ کر اچانک مسجدوں اور درگاہوں میں شدت کے ساتھ مندر تلاش کئے جانے لگے حتی کہ اجمیر درگاہ پر بھی ہاتھ ڈال دیا گیا۔ عدالتیں فراخ دلی کے ساتھ دھڑا دھڑ سروے کرانے کے احکامات صادر کرنے لگیں اور انتظامیہ سرعت کے ساتھ عدلیہ کے حکم کی بجاآوری میں جٹ گئی ۔محکمہ آثار قدیمہ کی دوربین نگاہوں کو ان میں مندر کے آثار نظر آنے لگے۔کئی سوسالہ ‘غلامی’ کا انتقام نئی نسل سے لینے کی پرتگیا دھرم سنسدوں میں کی جانے لگی ہے۔ مرکزی وزار کھلے عام رام زادوں اور ۔۔؛؛؛ کا موازنہ کرتے نظر آئے۔ دیش کے غداروں کو گولی مارنے کی ترغیب دینے لگے۔ عام مسلمان لنچنگ کے نام پر سڑکوں پر مارا جانے لگا گویا اس کا خون بہانا جائز ہوگیا۔
عدلیہ کے بدلتے رویے کی ایک مثال عزت مآب جسٹس شیکھر یادو ہیں جن کے بیان نے سپریم کورٹ کو بھی نوٹس لینے پر مجبور کردیا۔ ان باتوں پر مرکزی و ریاستی سرکاروں کی خاموشی بتاتی ہے اس رجحان کو ان کی حمایت حاصل ہے۔ یہ آنچ جتنی بھڑکے گی منڈل وادی قوتوں کا لڑنا اور مسلمان کے خلاف جاری نفرتی مہم کے خلاف بولنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک طرف ووٹ پالیٹکس کی وجہ ان کا بولنا مشکل ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہا ہے ۔مسلم لیڈرشپ نے منڈل وادیوں کا ساتھ تو دیا مگر ان کی جھولی میں ووٹ ڈلوانے تک، اس کا بھرپور سیاسی فائدے اٹھانے میں وہ ناکام رہی۔ وہیں مسلمانوں کی چوڑیاں کسے جانے کی خوشی میں اکثریت اپنے سارے مسائل اور غم بھول گئی ہے۔ اس وقت گیند سپریم کورٹ کے پالے میں ہے اور اس نے یہ گیند مرکز کے پالے میں ڈال دی کہ پلسز آف ورشپ ایکٹ پر اپنا موقف چار ہفتوں میں بتائے۔ مان لیجیے مرکزنے اس قانون پر اپنے تحفظات پیش کردیے تب کیا ہوگا ۔ ان حقائق پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔سارا کھیل سیاسی ہے ہمیں “کھودو ابھیان“ کا منظر،پس منظر اور پیش منظر ذہن میں رکھنا ہوگا اور اس کے دوررس سیاسی اثرات کو دھیان میں رکھتے ہوئے حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ وقف ترمیمی بل اسی ترشولی سیاست کا حصہ ہے۔مسلمانوں کی سخت جانی ،مذہب سے اٹوٹ وابستگی اور شناخت سے سمجھوتہ نہ کرنے کی ضد ہندوتووادیوں کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ یہ مزاحمت کی جنگ ہے اور فیصلہ کن بھی۔