دہلی میں بی جے پی کی حکومت

مسلم اداروں کا مستقبل؟

سہیل انجم
مئی 2025

بی جے پی یہ دعویٰ کرنے میں پیچھے نہیں رہتی کہ وہ سب کی حکومت یعنی سب کا ساتھ سب کا وکاس والی حکومت ہے۔اس کی حکومت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو بھی وہی مراعات حاصل ہوتی ہیں جو دوسروں کو ملتی ہیں۔ اصولی طور پر تو یہ بات درست ہے کہ حکومت کی اسکیموں میں نہ تو مسلمانوں کا نام ہوتا ہے اور نہ ہی غیر مسلموں کا۔ یہ بھی درست ہے کہ ان اسکیموں سے مسلمان بھی کسی حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن اگر بی جے پی حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی اور اقلیتی امور بالخصوص مسلم اداروں کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو انتہائی مایوسی ہوتی ہے اور حکومت کا دعویٰ کھوکھلا نظر آتا ہے۔ بی جے پی انتخابات میں مسلمانوں کو اپنا امیدوار نہیں بناتی۔ اٹل بہاری واجپئی کے زمانے میںایسے ایک دو مسلمانوں کو ٹکٹ دے دیا جاتا تھا جنھوں نے اپنی پوری زندگی بی جے پی میں کھپا دی ہو۔ وہ راجیہ سبھا میں بھی کسی نہ کسی کو بھیجتی رہی ہے۔ لیکن نریندر مودی کی حکومت میں یہ پالیسی یکسر بدل گئی اور اب کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا جاتا۔ اگر کسی کو دیا بھی جاتا ہے تو ایسی جگہ سے جہاں سے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر لوک سبھا انتخابات میں اس نے کیرالہ کے ملاپورم سے اپنے ایک پرانے وفادار عبد السلام کو ٹکٹ دیا تھا جن کی شکست یقینی تھی اور وہ ہار بھی گئے۔ اسی طرح مودی حکومت میں اس وقت تک مختار عباس نقوی کو وزیر بنائے رکھا گیا جب تک کہ ان کی راجیہ سبھا کی مدت تھی۔ مدت ختم ہوتے ہی ان کی وزارت بھی چلی گئی۔ ان کے بارے میں کئی قسم کی افواہیں تھیں کہ ان کو یہ مل جائے گا، وہ مل جائے گا لیکن وہ صرف افواہیں ثابت ہوئیں۔ وہ اب اپنے گھر بیٹھے ہیں۔ اسی طرح دہلی میں بی جے پی کی حکومت میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی تھی۔ مدن لال کھورانہ کی کابینہ رہی ہو یا صاحب سنگھ ورما کی ایک بھی مسلمان کو وزیر نہیں بنایا گیا تھا۔ جبکہ کانگریس کی حکومت میں جو کہ شیلا دیکشت کی قیادت میں پندرہ سال چلی پہلے پرویز ہاشمی وزیر رہے اور بعد میں ہارون یوسف۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت جب دو ماہ کے لیے 2013-2014 میں بنی تھی تو اس میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں تھا۔ البتہ جب 2015 اور 2020 میں اس کی حکومت بنی تو عمران حسین کو مسلم کوٹے سے وزیر بنایا گیا۔ لیکن اب جبکہ دہلی میں بی جے پی کی حکومت قائم ہو گئی اور ریکھا گپتا وزیر اعلیٰ بن گئی ہیں تو اس میں بھی کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ کوئی ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ بی جے پی نے کسی مسلمان کو ٹکٹ ہی نہیں دیا تو پھر کوئی مسلمان جیت کر کیسے آتا۔

اس طویل تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں بی جے پی کی سوچ کیا ہے اور اس کی پالیسی کیسی ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے لیڈران یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ مسلمان بھی ان کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ خاص طور پر طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد مسلم خواتین کا رجحان بی جے پی کی جانب بڑھا ہے۔ ویسے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں اعداد و شمار کے مطابق آٹھ فیصد مسلمانوں نے بی جے پی ووٹ دیا تھا۔لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا معاملہ ہو یا مسلم اداروں کا بی جے پی حکومتوں کا رویہ معاندانہ رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں راجستھان کے تعلیمی اداروںمیں سہ لسانی فارمولے کے تحت اردو کی جگہ پر سنسکرت پڑھانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ اردو مسلمانوں کی زبان نہیں ہے لیکن اسے مشرف بہ اسلام کرنے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے اور یہ بتانے اور جتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو کے سلسلے میں جس مذہبی و لسانی عصبیت کا  مظاہرہ کیا ہے وہ اس کی تازہ مثال ہے۔

اب جبکہ دہلی میں بی جے پی حکومت قائم ہو گئی ہے مسلمانوں سے متعلق اداروں جیسے کہ وقف بورڈ، اردو اکادمی، اقلیتی کمیشن اور حج کمیٹی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ حالانکہ کیجری وال حکومت میں ہی ان اداروں کو غیر فعال کر دیا یا عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا تھا اور اب تو ان کو مزید بیکار کر دیا جائے گا۔ وقف بورڈ کے تنازعات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس کے سی ای او نے عدالت میں ایساموقف اختیار کیا کہ وقف کی املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ کیجری وال حکومت نے وقف کے پیسے سے ائمہ حضرات کو تنخواہ دینے کا اعلان کیا تھا جس پر کچھ دنوں تک عمل کیا جاتا رہا لیکن 19 ماہ سے ان کو تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔ جبکہ حکومت کو اپنے خزانے سے نہیں بلکہ وقف بورڈ کے پیسے سے تنخواہ دینی تھی۔ اردو اکادمی کا جہاں تک معاملہ ہے تو اسے بھی بڑی حد تک غیر فعال بنا دیا گیا۔ اکادمی میں بیس سے زائد اسامیاں خالی ہیں لیکن ان کو پُر نہیں کیا گیا۔ جب بھی اکادمی کی طرف سے اس سلسلے میںکوشش کی گئی تو یہ دلیل دی جاتی رہی کہ اگر اتنے لوگوں کی بھرتی ہوگی تو بی جے پی شور مچائے گی کہ کیجری وال حکومت مسلمانوں کا تشٹی کرن کر رہی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کیجری وال نے اپنی پارٹی کے ایک ایسے شخص کو اکادمی کا وائس چیئرمین بنا دیا تھا جواردو جانتا ہی نہیں تھا۔ اب اسمبلی انتخابات سے قبل اس کا بجٹ ریلیز کیا گیا جس کی وجہ سے اس مالی سال میں اکادمی کی جانب سے کچھ کام کیے گئے۔ اکادمی میں اس وقت جو بچے کھچے کارکن ہیں وہ پوری لگن سے کام کر رہے ہیں اور اس کو زندہ اور متحرک رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ کب تک ہوگا کہا نہیں جا سکتا۔ اقلیتی کمیشن کا معاملہ یہ ہے کہ پہلے دور میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے اس سلسلے میں سنجیدگی دکھائی تھی اور سینئر صحافی، دانشور اور ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر السلام خاں کو کمیشن کا چیئرمین بنایا تھا۔ انھوں نے اپنی مدت میں اتنا کام کیا کہ کمیشن کا نام ہو گیا۔ لیکن ان کو دوبارہ نہ بنانا پڑے اس لیے ان کے خلاف الزامات عاید کیے گئے اوربالآخر انھیں دوبارہ یہ موقع نہیں دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے اپنی پارٹی کے ایک شخص کو کمیشن کا چیئرمین بنادیا جس نے کمیشن کو ٹھپ کرکے رکھ دیا۔جہاں تک حج کمیٹی کا معاملہ ہے تو مرکزی حج کمیٹی کے چیئرمین اے پی عبد ل کٹی کو بنایا گیا ہے۔ جہاں تک دہلی حج کمیٹی کا معاملہ ہے تووہ دہلی حکومت کے تحت آتی ہے لیکن بی جے پی یا حکومت نے جوڑ توڑ کرکے اپنی ایک کارکن کوثر جہاں کو چیئر مین بنا رکھا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دہلی میں بی جے پی کی حکومت میں ان اداروں کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس کو جانچنے کے لیے مرکزی حکومت کے تحت آنے والے ان اداروں کا جائزہ لینا ہوگا جن کا تعلق اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ہے۔ چونکہ مسلمان اس ملک میں سب سے بڑی اقلیت ہیں لہٰذا کانگریس کی حکومتوں میں قومی اقلیتی کمیشن کا چیئرمین کسی مسلمان کو بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن بی جے پی حکومت نے کسی مسلمان کو اس لائق نہیں سمجھا کہ اسے چیئرمین بنائے۔ مزید برآں یہ کہ مسلمانوں کے خلاف کتنے جرائم ہوتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماب لنچنگ ہو یا ہیٹ اسپیچ یا اسی طرح کے دیگر معاملات۔ قومی اقلیتی کمیشن نے کسی بھی معاملے میں کوئی موثر کارروائی نہیں کی۔ اگر مسلمانوں کی جانب سے اس کے سامنے معاملات رکھے جاتے تو لیپا پوتی کر دی جاتی ہے۔ اقلیتوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مولانا آزاد فاونڈیشن کے تحت وظیفے دیے جاتے ہیں جن سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتیںبھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ لیکن اس کا بجٹ اتنا کم کر دیا گیا ہے کہ اب اقلیتیں پہلے کی طرح فائدہ نہیں اٹھا پاتیں۔ اسی طرح اقلیتوں سے متعلق دیگر اسکیموں کا حال ہے۔ انھیں یا تو بند کر دیا گیا ہے یا پھر ان کا بجٹ کم کر دیا گیا ہے۔

حج سال میں ایک بار ہوتا ہے اور ہندوستان سے پونے دو لاکھ مسلمان ہر سال حج پر جاتے ہیں۔ پہلے حج کمیٹی کو وزارت خارجہ کے تحت رکھا گیا تھا لیکن مودی حکومت نے اسے اقلیتی امور کی وزارت کے تحت کر دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی مراعات بھی چھی لی گئیں اور کرایہ اور دیگر اخراجات بڑھا دیے گئے۔ سمجھا جاتا ہے کہ چونکہ یہ معاملہ بین الاقوامی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں ہو پا رہی ہے۔ کیونکہ اگر حکومت نے حج کے معاملات میں زیادہ گڑبڑ کی تو اس پر عالمی سطح پر یا کم از کم عالم اسلام کی سطح پر آوازیں اٹھیں گی۔ ورنہ اگر یہ معاملہ صرف اندرون ملک تک محدود ہوتا تو اب تک پتہ نہیں کیا کر دیا گیا ہوتا۔ مسلمانوں سے متعلق ایک اور بڑا ادارہ ہے جس کا نام ہے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ ہم ایک بار پھر یہ عرض کریں گے کہ اردومسلمانوں کی زبان نہیں ہے لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ اسے مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کسی معروف کمپنی کے اشتہار میں کوئی اردو لفظ آجائے تو اس پر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں قومی کونسل برائے اردو زبان کا جو حشر کیا جا رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایک عرصہ ہو گیا اس کی ایکزیکٹو کمیٹی ہی تشکیل نہیں دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے فروغ اردو کے بہت سے کام نہیں ہو پا رہے ہیں۔

مرکزی حکومت کی اس کارکردگی کے علاوہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے متعلق اداروں کا کیا حشر ہو رہا ہے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوپر راجستھان کی مثال دی جا چکی ہے۔ آسام اور اترپردیش میں مدارس کے خلاف سرکاری مہم جاری ہے۔ آسام میں سیکڑوں مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یوپی میں مدارس کو بدنام کرنے کے لیے باربار ان کی جانچ ہو رہی ہے۔ حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رہا لیکن یوپی کے مدارس کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ انھیں مختلف بہانوں سے پریشان کیا جا رہا ہے۔

اس روشنی میں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی میں بی جے پی حکومت کے دور میں مسلمانوں سے متعلق اداروں کا کیا حشر ہوگا۔ ابھی تو یہ حکومت قائم ہوئی ہے۔ ابھی اس کی جانب سے کوئی اعلان نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا اندیشہ اپنی جگہ پر برقرار ہے کہ عام آدمی پارٹی کے دور میں ان اداروں کو جس طرح غیر فعال بنایا گیا بی جے پی کے دور میں ان کا اور خراب حشر کیا جائے گا۔ کوئی تعجب نہیں کہ یہاں بھی اسلامی مدارس کے خلاف جانچ وغیرہ شروع کر دی جائے۔ اس تجزیے کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دہلی میں آنے والے دن مسلمانوں سے متعلق اداروں کے لیے کوئی بہت اچھے نہیں ہوں گے۔

qr code

Please scan this UPI QR Code. After making the payment, kindly share the screenshot with this number (+91 98118 28444) so we can send you the receipt. Thank you for your donation.