جے این یو کو کرائے پر دینے کی تیاری

‎ابھے کمار
ستمبر 2024

‎ملک کی دارالحکومت دہلی میں واقع جواہرلال نہرو یونیورسٹی یعنی جے این یو بلا شبہ ملک کا تعلیمی سرمایہ ہے۔ اس بات کا اعتراف نیاک (نیشنل اسسمنٹ اینڈ ایکریڈیٹیشن کونسل) بھی کرتا ہے اور اسے ملک کی ٹاپ یونیورسٹی کے زمرے میں رکھتا ہے۔ یہی نہیں، یو جی سی نے یونیورسٹی کے کئی تعلیمی مراکز کو ‘سینٹرز آف ایکسیلنس’ قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے این یو میں پڑھنے کی خواہش لاکھوں طلبہ اور طالبات کی ہوتی ہے۔ جو بچے شعبہ فن و بشریات، سماجی علوم اور بین الاقوامی امور میں داخلہ لینا چاہتے ہیں، ان کی پہلی پسند اکثر جے این یو ہی ہوتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بھارت اور بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات جے این یو میں داخلہ پانے کے لیے سالوں سال تیاری کرتے ہیں، اور ان میں سے کچھ ہی خوش قسمت امیدواروں کو اَراولی کی پہاڑی پر بسے اس خوبصورت یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔

‎ملک میں تحقیق اور ریسرچ کو فروغ دینے اور سماج کے دبے کچلے طبقات کو صلاحیت تربیت دینے کے لیے جے این یو کا قیام عمل میں آیا۔ یہ یونیورسٹی 1966 میں پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے جے این یو ایکٹ کے تحت وجود میں آئی، جس میں اس یونیورسٹی کے مقاصد واضح ہیں۔ اس یونیورسٹی کی تشکیل سماجی انصاف کے اصولوں پر کی گئی تھی۔ جے این یو ایکٹ واضح طور پر کہتا ہے کہ “یونیورسٹی ان اصولوں کے مطالعہ کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی جن کے لیے جواہرلعل نہرو نے اپنی زندگی کے دوران کام کیا، جیسے قومی یکجہتی، سماجی انصاف، سیکولرازم، جمہوری طرز زندگی، بین الاقوامی تفہیم اور معاشرتی مسائل کے لیے سائنسی نقطہ نظر”۔

‎مگر بہت ہی دُکھ کی بات ہے کہ گزشتہ ۱۰ سالوں میں جے این یو کے تشخص کو بدلنے کے لیے ہر طرح کی سازشیں کی گئی ہیں۔ جہاں ایک طرف جے این یو کے بیدار طلبہ و طالبات کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور ان میں سے بعض کو جیل میں قید بھی کیا گیا ہے، وہیں فلاحی کاموں سے متعلق فنڈز میں بھی کمی کر دی گئی ہے۔ آج حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ اس یونیورسٹی کے بعض اثاثوں کو بازار میں کرائے پر دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کی طلبہ مخالف پالیسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ میڈیا میں یہ بات گشت کر رہی ہے کہ ملک کے اس موقر تعلیمی ادارے کے اثاثوں کو کوڑی کے دام میں نجی کمپنیوں کو کرائے پر دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس پورے معاملے پر آر ایس ایس اور بی جے پی کی مجرمانہ خاموشی ان کی دوہری سیاست کو عیاں کر رہی ہے۔ جہاں بھگوا تنظیمیں دن رات بھارت کو “وِشو گرو” بنانے کا خواب بیچتی ہیں، وہیں اس کے دور حکومت میں ملک کی ایک یونیورسٹی کو چلانے کے لیے اس کے اثاثوں کو بھاڑے پر پرائیویٹ کمپنیوں کو دینے کا بھی منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔

‎جے این یو کے بعض اثاثوں کو کرائے پر دینے کی بات خود جے این یو کی وائس چانسلر پروفیسر سانتی شری دھولی پوری پنڈت نے پریس کے سامنے آ کر کہی ہے۔ ‘دی انڈین ایکسپریس'(17,اگست) میں ان کا تفصیلی بیان شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ جے این یو کے پاس گومتی گیسٹ ہاؤس اور35  فیروز شاہ روڈ جیسے اثاثے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ ان اثاثوں کو  پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماڈل پر کرائے پر دینے کا متمنی ہے تاکہ یونیورسٹی کو مسلسل فنڈز مل سکیں۔ ایک اور اہم بات جو جے این یو کی وائس چانسلر نے کہی وہ یہ تھی کہ یونیورسٹی کیمپس کے اندر موجود ایک درجن کے قریب قومی ادارے، جو اسے کرایہ نہیں دیتے، ان سے بھی کرایہ لینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

‎غور طلب بات یہ ہے کہ گومتی گیسٹ ہاؤس دہلی کے مَنڈی ہاؤس کے قریب واقع ہے، جہاں فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی عمارت ہے۔ گومتی گیسٹ ہاؤس اس عمارت کے پیچھے واقع ہے۔ جے این یو کی وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اسے کسی پرائیویٹ ادارے کو دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے تاکہ یونیورسٹی کو ایک رقم کرائے کے طور پر مل سکے۔ انتظامیہ کو امید ہے کہ گومتی گیسٹ ہاؤس سے فی ماہ 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی آمدنی ہو جائے گی۔

‎جے این یو کی وائس چانسلر کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کی جائیدادوں کو “مانیٹائز” کیا جائے تاکہ یونیورسٹی کے پاس فنڈز کی کمی دور ہو سکے۔ پریس کو اس بارے میں مزید معلومات دیتے ہوئے جے این یو کی وائس چانسلر نے کہا کہ گومتی گیسٹ ہاؤس کے علاوہ، فیروز شاہ روڈ پراپرٹی پر انڈین چیمبر آف کامرس کے طرز پر ایک کثیر المنزلہ عمارت بنائی جائے گی، جس میں سیمینار ہال، آڈیٹوریم، اور گیسٹ ہاؤس شامل ہوں گے، اور انہیں پھر کرائے پر دے دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس تعمیر میں دو سال سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

علاوہ ازیں، جے این یو انتظامیہ یہ بھی کوشش کر رہا ہے کہ اس کے کیمپس کے اندر جو 12, قومی ادارے موجود ہیں، ان سے ہر ماہ کرایہ لیا جائے۔ جے این یو کی وائس چانسلر کو امید ہے کہ جب یونیورسٹی کے اثاثوں سے کرایہ آنے لگے گا تو یونیورسٹی کے پاس آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ تیار ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی فیس بڑھانے کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہے، اس لیے کرایہ لینے کے علاوہ زیادہ متبادل نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جے این یو کی وائس چانسلر نے اس بات کی طرف بھی اشارہ دیا کہ یونیورسٹی کیمپس میں سولر پینلز لگانے پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ یونیورسٹی کو بجلی کے بل کے طور پر بڑی رقم نہ دینا پڑے۔ وائس چانسلر کا دعویٰ ہے کہ جے این یو کو ہر ماہ اپنے فنڈ کا ایک بڑا حصہ بجلی پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طلبہ سب کچھ “مفت” چاہتے ہیں، یہاں تک کہ اے سی بھی۔ حالانکہ وائس چانسلر کا یہ بیان کہ طلبہ مفت خوری کی ذہنیت میں مبتلا ہیں، کافی مایوس کن ہے۔ جے این یو کے ہاسٹلوں میں صرف بلب، ٹیوب لائٹ، اور پنکھا چلانے کی اجازت ہوتی ہے، جبکہ انتظامیہ کے افسران کے کمروں میں اے سی لگا ہوتا ہے۔ خود وائس چانسلر کے چیمبر میں کئی سارے اے سی لگے ہوئے ہیں، مگر طلبہ کو ہاسٹل میں بلب اور پنکھے کا معمولی سا بجلی بل بھی ادا کرنا ناگوار گزر رہا ہے۔ یہ بتلاتا ہے کہ جے این یو انتظامیہ معیاری تعلیم کو ہر طالب علم کو مہیا کرانے کے اپنے فریضے سے منہ موڑ رہی ہے اور وہ ہر چیز کو منافع خوری کے نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہے۔

‎جے این یو کے اثاثوں کو کرائے پر دینے کے علاوہ، جے این یو انتظامیہ یونیورسٹی کو فی الحال مالی دباؤ سے نکالنے کے لیے ‘انسٹی ٹیوٹ آف ایمیننس’ کے درجہ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اسے امید ہے کہ جیسے ہی جے این یو کو یہ اعزاز حاصل ہو جائے گا، اسے ایک ہزار کروڑ روپے کی مالی امداد مل جائے گی، جس سے یونیورسٹی ایک بڑی رقم بطور سود حاصل کرتی رہے گی، اور اس سے جے این یو کے مالی بحران سے نکلنے میں آسانی ہوگی۔ حالانکہ اس مطالبے کی حمایت میں بائیں بازو کی طاقتیں بھی سامنے آ گئی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے راجیہ سبھا رکن پی سندوش کمار نے مرکزی وزارت تعلیم کو خط لکھا ہے اور انہوں نے جے این یو کے لیے “انسٹی ٹیوٹ آف ایمیننس” کے درجہ کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنا خط وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کو ارسال کر کے جے این یو کے مالی بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سی پی آئی کے راجیہ سبھا ممبر نے جے این یو کے خراب انفراسٹرکچر کا بھی مسئلہ اٹھایا ہے اور اس بات پر بھی رنج کا اظہار کیا ہے کہ اساتذہ کی ترقیوں کو لے کر ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ سی پی آئی ایم پی نے اپنے خط کے ذریعے وزیر تعلیم پردھان کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ جے این یو کے اثاثوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کی کوشش افسوسناک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ جے این یو جیسے باوقار ادارے کو منافع خوری کی ذہنیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مودی حکومت تعلیم عامہ پر سرکاری اخراجات کو کم کر رہی ہے۔

‎جہاں جے این یو کے مالی بحران کی بات ملک کے سیکولر اور بائیں بازو کے سیاست دان اٹھا رہے ہیں، وہیں جے این یو کے طلبہ و طالبات “فنڈ کٹ” اور اپنے حقوق پر ہو رہے حملوں کے خلاف دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ گزشتہ دنوں جے این یو کے طلبہ و طالبات برسات کے اس موسم میں سابرمتی ٹی پوائنٹ کے پاس سڑک کے کنارے بھوک ہڑتال پر تھے۔ ان کی ہڑتال ایک ہفتے سے زیادہ دنوں تک چلی۔ انہوں نے 23 اگست کے روز وزارتِ تعلیم کے دفتر تک مارچ بھی نکالا۔ انہوں نے جے این یو میں مسلسل ہو رہے فنڈ کٹ کا مسئلہ اٹھایا۔ ان کے مطالبات میں ایک پہلو یہ ہے کہ طلبہ و طالبات کے لیے وظیفہ کو پانچ ہزار روپے تک کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یونیورسٹی کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور لائبریری کے ڈھانچے کو بہتر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

‎مگر جے این یو طلبہ و طالبات کے مطالبات کو ابھی تک جے این یو انتظامیہ نظر انداز کر رہا ہے۔ طلبہ کے تمام مطالبات کو خارج کرنے کے لیے جے این یو وی سی کے پاس ایک آسان بہانہ ہے کہ یونیورسٹی کے پاس فنڈ نہیں ہے۔ مگر جے این یو کے طلبہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یونیورسٹی کے پاس واقعی فنڈز کی کمی ہے تو پھر یونیورسٹی کیسے جے این یو کے لوگو کو تبدیل کرنے کے لیے دو کروڑ روپے خرچ کر سکتی ہے؟ طلبہ یونین کا یہ بھی الزام ہے کہ یونیورسٹی لائبریری کے فنڈ میں 80 فیصد کٹوتی کردی گئی ہے۔ جے این یو طلبہ کے مطالبات کو انتظامیہ بھلے ہی نظر انداز کر دے، مگر یہ بات اب اعداد و شمار کے حوالے سے سامنے آ گئی ہے کہ جے این یو میں طلبہ کے فلاح سے متعلق فنڈ اور ریسرچ کے بجٹ میں کافی کمی آئی ہے۔ ,31اگست کے روز، انگریزی کے مشہور اخبار “ٹیلی گراف” میں ایک خبر جے این یو کے فنڈ کٹ سے متعلق شائع ہوئی، جس میں جے این یو کی سالانہ رپورٹ کی بنیاد پر دکھایا گیا ہے کہ جے این یو انتظامیہ نے اکیڈیمک بجٹ کو گزشتہ 10 سالوں میں 50 فیصد کم کر دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، سب سے زیادہ نقصان ریسرچ اسکالرز کو ہوا ہے، جو فیلڈ ورک کے لیے یونیورسٹی سے مالی تعاون کے متمنی تھے۔ سال 2014 کے بعد جب ملک میں نریندر مودی کی حکومت مرکز میں آئی تب سے مسلسل طلبہ و طالبات کے وظیفے میں بھاری کمی کی گئی ہے۔ جے این یو نے گزشتہ ایک دہائی میں اکیڈیمک جرنلز کی خریداری بھی تقریباً بند کر دی ہے اور سیمینار کے لیے بھی گرانٹ بڑی مشکل سے ملتی ہے۔اگر کوئی گرانٹ ملتا بھی ہے تو سب ایسے پروگرام ہوتے ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے ایجنڈوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ٹیلی گراف نے جے این یو کی اپنی سالانہ رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ دس سال پہلے وظیفے پر 15 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیا جاتا تھا، جو اب کم ہو کر 3,کروڑ پرآ گیا ہے۔ اس طرح آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وظیفے، جس کا سیدھا فائدہ غریب اور ضرورت مند طلبہ کو ہوتا ہے، میں پانچ مرتبہ تخفیف کر دی گئی ہے۔ لیب کے لیے آج سے 10 سال پہلے 2 کروڑ روپیہ خرچ ہوتا تھا، اب اسے ایک کروڑ کے اندر سمیٹ دیا گیا ہے۔ اسی طرح، فیلڈ ورک اور کانفرنس کے لیے 90 لاکھ روپے دیے جاتے تھے، مگر ایک دہائی میں یہ رقم 11 لاکھ پر آ گئی ہے۔ آسان لفظوں میں کہیں تو فیلڈ ورک اور کانفرنس کے لیے مالی امداد میں 80 سے 90 فیصد کی کمی آئی ہے۔ آج سے دس سال پہلے سیمینار کے لیے ایک کروڑ روپے ملتے تھے، وہ اب آدھا کر دیا گیا ہے۔ جرنلزکی خریداری میں بھی بڑی تخفیف کی گئی ہے۔ دس سال پہلے جہاں 8 کروڑ سے زیادہ اس پر خرچ کیا جاتا تھا، وہیں آج اس کے لیے صرف دو کروڑ ہی مختص کیے جاتے ہیں۔ جے این یو کے فنڈ کٹ پر جے این یو اساتذہ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کسی بھی یونیورسٹی کے بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے۔ مگر جب اس میں اضافہ نہیں ہوتا تو پھر انتظامیہ فلاحی کاموں سے اپنے ہاتھ کھینچنے لگتی ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان طلبہ و طالبات کے مفاد پر پڑتا ہے۔

جہاں ایک طرف ٹیلی گراف کی خبر یہ کہتی ہے کہ جے این یو انتظامیہ نے گزشتہ ایک دہائی میں طلبہ اور ریسرچ سے متعلق فنڈ میں کافی کٹوتی کی ہے، وہیں “انڈیا ٹوڈے” (20 جولائی،2024) نے ایک آر ٹی آئی کی بنیاد پر یہ خبر شائع کی ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں جے این یو کے فنڈ میں ڈیڑھ مرتبہ اضافہ ہوا ہے۔ وہیں دوسری طرف یونیورسٹی نے بڑی تعداد میں اپنے ہی طلبہ کے خلاف بہت سارے ایف آئی آر بھی درج کی ہے۔ جب سے بھگوا طاقتوں نے جے این یو پر اپنا قبضہ جمایا ہے تب سے لاکھوں کی تعداد میں طلبہ اور طالبات سے مظاہرے کرنے اور نظم و ضبط کے نام پر جرمانہ لیا گیا ہے۔ انظامیہ ہی جانتی ہے کہ ان پیسوں کا کہاں استعمال کیا گیا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی مذکورہ خبر کے مطابق، پونے کے ایک آر ٹی آئی جہدکار پرپھل ساردا نے یہ معلومات حاصل کی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کے دور میں گزشتہ دہائی کے مقابلے میں زیادہ سبسڈی دی گئی ہے۔ آر ٹی آئی سے پتہ چلا ہے کہ سال 2004 سے سال 2015 کے درمیان، جے این یو کو کل دو ہزار 55,کروڑ روپے کی سبسڈی ملی۔ اس کے مقابلے میں، گزشتہ دہائی کے دوران سبسڈی بڑھ کر تین ہزار 30,کروڑ روپے ہوگئی۔ ایسا لگتا ہے کہ سبسڈی میں ڈیڑھ گنا اضافہ بڑھی ہوئی مہنگائی اور بڑھتی ہوئی ٹیچروں کی تنخواہوں کے مدنظر کچھ زیادہ نہیں تھا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جے این یو میں طلبہ و طالبات کی تعداد او بی سی ریزرویشن کے نفاذ کے بعد تقریباً دو گنا بڑھ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ او بی سی ریزرویشن کے مدنظر جنرل کوٹے کی سیٹیں بھی بڑھا دی گئی تھیں۔ بعد کے سالوں میں جے این یو میں بہت سارے نئے شعبے کھلے اور بہت سارے ٹیچروں کی تقرریاں ہوئیں۔

‎اگر ان باتوں کو دھیان میں رکھا جائے تو سبسڈیز میں اضافہ فنڈ کٹ کی لاجک کو خارج نہیں کرتا ہے، کیونکہ یونیورسٹی کے بجٹ کا بڑا حصہ طلبہ کے فلاحی کاموں کے علاوہ کہیں اورخرچ ہو رہا ہے۔ ایک بہت بڑا فنڈ بھگوا جماعت کے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کی عمارتوں کا بھی برا حال ہے۔ فنڈ کی کمی کی وجہ سے بہت سارے مقامات پر چھتیں ٹوٹ کر گر رہی ہیں اور کچھ بارش کے موسم میں ٹپک رہی ہیں۔ یہ سب اشارہ کرتا ہے کہ مودی حکومت ہو یا جے این یو انتظامیہ، ان کی نظر میں تعلیم عامہ کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ تعلیم کو بازار کے حوالے کر دیا جائے۔ اسی سوچ کی وجہ سے جے این یو کے اثاثوں کو کرایہ پر دینے کا ناپاک منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ افسوسناک ہے کہ ملک کی مؤ قر یونیورسٹی کی جائیداد کو سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ حالانکہ جے این یو کی وی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ گومتی گیسٹ ہاؤس کو کرایہ پر دینے سے یونیورسٹی کو صرف 50, ہزار سے ایک لاکھ روپے ماہانہ ملے گا۔ مگر کوئی جاکے وی سی موصوفہ سے پوچھے کہ یہ چھوٹی سی رقم جے این یو جیسی بڑی یونیورسٹی کے اخراجات کا کتنا حصہ برداشت کر پائے گی؟ کیا اس رقم سے یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو تنخواہ دی جا سکتی ہے؟ ہرگز بھی نہیں۔ بہت سارے طلبہ و طالبات کے ذہن میں یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ کہیں گومتی گیسٹ ہاؤس کو کرایہ پر دینے کے پیچھے بھگوا جماعت سے قریب سرمایہ داروں کی لابی کارفرما تو نہیں ہے، جو سالوں سے جے این یو کی ملکیت پر لالچی نگاہیں لگائے ہوئے ہیں؟

‎یہ جے این یو انتظامیہ کی خام خیالی ہے کہ اس طرح کےاثاثوں کو کرایے پر دینے کے اقدامات یونیورسٹی کی آمدنی کا مستقل ذریعہ بن جائیں گے۔ جب سے جے این یو کی وی سی کا مذکورہ بیان آیا ہے، تب سے عوام اس بات سے فکرمند ہیں کہ کہیں یہ سب جے این یو کو پوری طرح منافع خوری کے ماڈل پر ڈھالنے کی سازش تو نہیں ہیں؟ عوام کو اس بات سے ناراضگی ہے کہ جے این یو انتظامیہ تعلیم کو بازار میں بیچنے اور خریدنے کی شَے سمجھ کر کام کر رہی ہے۔

‎حیققت تو یہ ہے کہ جے این یو میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ ملک کے مختلف حصوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آج ہر طرح کی تعلیم مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ غریب آدمی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے سے قاصر ہے۔ ملک کے پالیسی سازوں کی کوشش ہے کہ تعلیم کو سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا جائے۔ انہیں معلوم ہے کہ جب تک سرکاری اسکول اور کالج برباد نہیں ہوں گے، تب تک پرائیویٹ تعلیمی ادارے آباد نہیں ہوں گے۔ افسوس کی بات ہے کہ ملک کے اعلیٰ منصوبہ بندی کرنے والے طبقے کے ذہنوں میں ایک ہی بات گردش کر رہی ہے کہ تعلیمی اداروں سے سوچنے اور سمجھنے والے طلبہ و طالبات نہیں، بلکہ فیکٹریوں اور کمپنیوں میں 12 سے 14 گھنٹے تک کام کرنے والے روبوٹ نکلیں۔ انہیں جے این یو کے کردار سے اس لیے بھی بغض ہے کیونکہ وہاں کے بچوں میں سیاسی بیداری پائی جاتی ہے اور ان کا ذہن فرقہ واریت کو قبول نہیں کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے این یو اور اس جیسے تعلیمی اداروں کے خلاف برسر اقتدار بھگوا طاقتیں مسلسل پروپیگنڈا کرتی ہیں۔ پزشتہ 10 سالوں سےجے این یو کو ملک مخالف یونیورسٹی کہہ کر بدنام کیا گیا ہے۔ بھگوا جماعت کے حامی پالیسی ساز آئے دن اخباروں میں مضامین لکھ کر حکومت کو یہ نصیحت دیتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیمکے حلقہ میں زیادہ بچوں کو داخلہ دینے کی پالیسی بھارت کی معیشت کے لیے درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے این یو میں “سیٹ کٹ” کیا گیا اور پی ایچ ڈی میں داخلے کو پیچیدہ بنایا گیا تاکہ کم سے کم امیدوار اس طرف رُخ کریں۔ ایسی سرمایہ دارانہ ذہنیت حکومت کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ شعبہ فن و بشریات اور سماجی علوم کی جگہ، پیشہ ورانہ کورسز کو فروغ دے تاکہ سرمایہ داروں کو سستے مزدور آسانی سے مل جائیں۔ جے این یو ماڈل ایسی غریب اور مزدور مخالف ذہنیت کے خلاف رہا ہے۔

ایسی منافع خور ذہنیت نہ صرف مزدور مخالف ہے، بلکہ یہ دلت، بہوجن اور اقلیتوں کے مفاد کے بھی خلاف ہے۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ بھارت کے کمزور طبقات کو تعلیم سے دور رکھ کر ہی غیر برابری کا یہ نظام کھڑا کیا گیا ہے۔ اعلیٰ ذات کے افراد نے نہ صرف انہیں وسائل سے محروم رکھا، بلکہ انہیں پڑھنے لکھنے کے قابل بھی نہ سمجھا۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے، تعلیمی اداروں تک کمزور طبقات کی رسائی بہت ہی کم تھی۔ مگر جدید دور میں، جہاں نوآبادیت کا سیاہ دور دیکھا گیا، وہیں اس دور میں تعلیم عامہ کا نظام بھی کھڑا ہوا، جہاں تعلیم حاصل کرنے میں ذات، مذہب اور جنس کی قید نہیں تھی۔ قومی تحریک کے بعد جب ملک میں جمہوری ڈھانچہ قائم ہوا، تو ریاست کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ سب کو تعلیم مہیا کرے اور سماج میں مساوات کو فروغ دے۔ ایسی ہی فکر کے پیٹ سے جے این یو کا جنم ہوا تھا۔

‎حالانکہ اعلیٰ ذات کی لابی نے ریزرویشن کو نافذ کرنے میں ہر طرح کی رکاوٹیں ڈالیں، مگر مساوات کی تحریک نے بہت ساری رکاوٹوں کو راہ سے ہٹانے میں کامیابی حاصل کی۔ جے این یو میں بھی ریزویشن حاصل کرنے کےلیے لمبی لڑائی چلی اور بڑی مشکل سے محکوم طبقات نے یہاں اپنی جگہ بنائی۔ یہ سچ ہے کہ آج بھی تعلیمی اداروں پر مٹھی بھر اعلیٰ ذات کے افراد چھائے ہوئے ہیں، مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ محکوم طبقات کے بہت سارے لوگ لڑ کر تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ محکوم طبقات کے یہ پڑھے لکھے افراد اپنے سماج کا حق پانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور بابا صاحب امبیڈکر کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایسی لابی جے این این یو میں بھی کافی مضبوط ہے اور تعلیم کو مہنگا کر جے این یو انتظامیہ کمزور کرنا چاہتا ہے۔

‎یہی وجہ ہے کہ ملک کے اعلیٰ ذات کے پالیسی ساز یہ نہیں چاہتے کہ جے این یو کی حالت بہتر ہو۔ اسی طرح وہ اس بات کے خواہشمند نہیں ہے کہ عام سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت بہتر ہو۔ انہیں خوف ہے کہ اگر ان تعلیمی اداروں میں بہتر سہولیات ہوں گی، تو کمزور طبقات کے لوگ ریزرویشن کی مدد سے یہاں قابض ہو جائیں گے۔ ارباب اقتدار کو اس بات کا بھی خوف ہے کہ معیاری تعلیم کے پھیلاؤ سے سماج میں بیداری پیدا ہو گی اور پھر سماجی اصلاح کی تحریک جنم لے گی۔ یہی وجہ ہے کہ رجعت پسند طبقات تعلیم عامہ کو فروغ دینے سے ڈرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ تعلیمی حلقے پر بازار کا قبضہ ہو جائے تاکہ صرف پیسے والوں کے بچے ہی پڑھ لکھ سکیں اور عام جنتا اَن پڑھ بنی رہے تاکہ مٹھی بھر طاقتور لوگوں کی بالادستی بدستور قائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی اندیکھی کی جا رہی ہے۔ جے این یو سے باہر تو حالات اور بھی خراب ہیں۔سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے کلاس رومز کے دروازے اساتذہ کی کمی کی وجہ سے طلبہ و طالبات کے لیے بند کیے جا رہے ہیں۔ ملک کے مستقبل کو نجی تعلیمی اداروں nکی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ کوچنگ سینٹرز بچوں کو سبز باغ دکھا کر ان سے موٹی رقم لوٹ رہے ہیں۔ جلدی سے کامیابی حاصل کرنے کے نام پر، کوچنگ سینٹرز بچوں کو نقلی اور غیر مستند کتابوں کی بیساکھی پر چلنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ جے این یو کے ایڈمیشن کو بھاری پھیر بدل اور نصاب میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جے این یو انتظامیہ نہیں چاہتا ہے کہ طلبہ کے اندر میں سیاسی شعور پیدا ہو۔ اسی لیے سوالات کے پیٹرن میں تبدیلی کیاجا رہا ہے تاکہ بچیں “گائیڈ بک”  کی طرف متوجہ ہوں۔

جہاں ایک طرف ملک کے حکمراں بھارت کو “وشو گرو” بنانے کا خواب بیچ رہے ہیں، وہیں بجٹ تیار کرتے وقت ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ تعلیم عامہ سے متعلق فنڈ کو کم کر دیا جائے، تاکہ عوام پریشان ہو کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف جانے پر مجبور ہو جائیں۔ ارباب اقتدار اپنا سینہ چوڑا کر کے یہ بات چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے، مگر انہیں اس بات پر شرم نہیں آتی کہ بھارت سے چھوٹی معیشتیں تعلیم کے شعبے میں ہم سے زیادہ بجٹ مختص کرتی ہیں۔ اربات اقتدار کو اس بات پر بھی شرم نہیں آتی کہ وہ فنڈ کٹ کر کے اپنے تعلیمی اثاثوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ایک عرصے سے سوشلسٹ تحریک کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ تعلیم پر بجٹ کا ۱۰ فیصد حصہ خرچ کیا جائے، مگر بھارت میں تعلیم عامہ پر دو فیصد سے تھوڑا ہی زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ جے یو یو اور جے یو سے باہربدحالی کا شکار ہے۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ بہار، اتر پردیش، جھارکھنڈ اور بنگال کے کالجوں میں پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔ سال کا ایک تہائی حصہ داخلہ لینے اور امتحان منعقد کرنے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ طلبہ و طالبات داخلہ لیتے ہیں اور کالج کی فیس ادا کرتے ہیں، مگر انہیں اپنے کالجوں میں بنیادی سہولتیں نہیں ملتیں۔ حال تو اس قدر بُرا ہو چکا ہے کہ زیادہ تر کالجوں میں مطلوبہ کلاس رومز اور اساتذہ نہیں ہیں۔ بہت سارے ایسے شعبے ہیں، جہاں ایک بھی استاد موجود نہیں ہے۔ حال تو اس قدر خراب ہے کہ بیشتر کالجوں میں اساتذہ کے بیٹھنے اور پڑھانے کے لیے معقول جگہ میسر نہیں ہے۔ زیادہ تر تعلیمی اداروں کی لائبریریاں عملے اور فنڈ کی کمی کی وجہ سے بند ہیں۔ کئی اداروں میں پانی اور صفائی کا بھی معقول انتظام نہیں ہے۔ کالج انتظامیہ بنیادی سہولیات کو پورا کرنے میں قاصر ہے، مگر کالج کے اندر نظم و ضبط کے نام پر وہ طلبہ، عملے اور اساتذہ کے خلاف تادیبی کارروائیاں کرنے میں سب سے آگے رہتا ہے۔اختصار یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کا ماحول جیل کی طرح بنتا جا رہا ہے، جہاں تنقیدی فکر کا دم گھٹ رہا ہے۔ اگر وقت رہتے جے یو یو میں بھگوا سازش کو ناکام نہیں کیا گیا تو جے این یو کی حالات مذکورہ کالجوں سے بہتر نہیں رہ پائے گی۔

‎جو کچھ بھی کل تک جے این یو کے باہر دیکھا جا رہا تھا، اب اس کی شروعات جے این یو میں کی جارہی ہے۔ اگر تعلیم عامہ کو بچانا ہے تو ہمیں تعلیم میں بڑھتے سرمایہ دارانہ رجحانات سے لڑنا ہوگا۔ جے این یو کو بچانے کی لڑائی ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کو بچانے کی لڑائی سے جوڑ کر دیکھنا ہوگا۔ عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جب اپنا ووٹ دیں تو تعلیم عامہ کے حوالے سے کون سی سیاسی جماعت اور امیدوار سنجیدہ ہیں، اس پر بھی غور کریں۔ معیاری تعلیم ہر شہری کا حق ہے، مگر ہر شہری کو یہ بھی بات یاد رکھنی چاہیے کہ حق بھیک میں نہیں ملتا، بلکہ اس کے لیے لڑنا ہوتا ہے۔ جس طرح جے این یو کے طلبہ لڑ رہے ہیں، ہمیں بھی ان کی لڑائی میں شامل ہونا چاہیے اور اپنے آس پاس کے تعلیمی اداروں کو بچانے کے لیے عوامی پر امن جدوجہد کرنی چاہیے۔