جموں وکشمیر میں دس سال بعد انتخابات

حماد اشرف
ستمبر 2024

جموں و کشمیر میں تقریباً ایک دہائی کے بعد پہلی بار اسمبلی انتخابات کا انعقاد 18 ستمبر سے ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق یہ انتخابات اس خطے میں ہو رہے ہیں جہاں 2019 میں مرکزی حکومت نے اس کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے نئی دہلی میں حال ہی میں بتایا تھا کہ ’’جموں و کشمیر میں ایک طویل وقفے کے بعد انتخابات ہونےجا رہے ہیں اور یہ ایک اہم تاریخی موقع ہے۔‘‘

ووٹنگ کا عمل تین مراحل میں ہوگا، جو 18 ستمبر سے یکم اکتوبر تک جاری رہے گا، جبکہ ووٹوں کی گنتی 4 اکتوبر کو ہوگی۔ تقریباً 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹر اس 90 رکنی قانون ساز اسمبلی کے لیے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ بہت سے لوگ اس الیکشن کو ایک تاریخی قدم کے طور پر دیکھتے ہیں، جو جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے لیڈروں کے انتخاب کا موقع فراہم کرے گا۔

کشمیر کا یہ خطہ تاریخی طور پر بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان تقسیم ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی ، جسے 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے دسمبر میں حکم دیا تھا کہ صوبائی انتخابات 30 ستمبر سے پہلے کرائے جائیں۔ وزیراعظم مودی کا دعویٰ ہے کہ ان کے 2019 کے فیصلے نے کشمیر میں دہائیوں کی خونریزی کے بعد حالات کو معمول پر لانے میں مدد کی ہے، جبکہ خصوصی حیثیت کے تحت اسے انتظامی خود مختاری کا کچھ حد تک اختیار حاصل تھا۔

بھارت اور پاکستان دونوں ہی کشمیر پر مکمل ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں جن میں سے دو کشمیر کے تنازع پر لڑی گئی ہیں۔جموں و کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف ایک طویل عرصے سے مسلح بغاوت جاری ہے جس میں ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، حالاں کہ حالیہ برسوں میں تشدد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان مسلح گروہوں کی حمایت کرتا ہے، جبکہ حالیہ حملے زیادہ تر جموں کے علاقے میں ہوئے ہیں۔

ماضی میں کشمیر میں انتخابات کو مسلح گروپوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس کے باعث بہت کم تعداد میں ووٹر اپنے حق کا استعمال کرپاتے تھے۔ تاہم اس سال اپریل اور مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اس خطے میں 35 سالوں میں سب سے زیادہ 58.46 فیصد ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا، جسے وزیراعظم مودی اور انتخابی عہدیداروں نے جمہوری عمل میں عوام کے اعتماد کا ثبوت قرار دیا ہے۔

جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاسی منظرنامہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ ایک جانب  جہاں سیاسی پارٹیاں اتحاد بنا رہی ہیں تو دوسری جانب مخالفین کی تنقیدوں کے تیروں کا سامنا بھی کر رہی ہیں۔علاقائی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس اور قومی پارٹی کانگریس نے ان انتخابات میں مل کر لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ بی جے پی نے اس اتحاد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے  اسے کانگریس کا “علیحدگی پسندوں سے اتحاد” قرار دیا۔ بے جے پی کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کانگریس نے پلٹ وار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ماضی میں پی ڈی پی اور بے جے پی نے بھی اتحاد کیا تھا تو پھر یہ سوال کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟

انتخابات کے اعلان کے بعد پارٹیوں کے درمیان سیاسی بازیگری میں شدت آ گئی ہے۔ کچھ امیدواروں نے یہ دیکھ کر کہ ان کی  پارٹیوں کی جانب سے انہیں ٹکٹ نہیں ملا، اپنی پارٹیاں چھوڑ دیں اور مخالف جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی یا پھر آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ یہ قدم سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا رہا ہے اور عوام کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

اس دوران نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے اپنے انتخابی منشور بھی جاری کیے ہیں، جن میں عوام سے مختلف وعدے کیے گئے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے منشور میں بنیادی حقوق کی بحالی، ترقیاتی منصوبے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے وعدے شامل ہیں۔ جب کہ پی ڈی پی نے اپنے منشور میں عوامی خدمات، تعلیمی نظام میں بہتری اور علاقائی خود مختاری کو فروغ دینے پر زور دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی جنوبی کشمیر میں انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا ہے۔ جماعت نے کہا ہے کہ وہ اننت ناگ، کولگام، شوپیان، دیو سر، پلوامہ، راجپور وغیرہ حلقوں سے انتخابات لڑے گی۔ جماعت اسلامی پر پابندی کی وجہ سے وہ بعض انتخابی نشستوں پر آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اتریں گے، جس سے جنوبی کشمیر میں انتخابی دنگل مزید دلچسپ اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔

یہ انتخابات جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا تعین کریں گے، جہاں اتحاد، مخالفین کی تنقید، امیدواروں کی بے چینی اور نئے منشوروں کے ساتھ ہر سیاسی جماعت اپنی قسمت آزمائی کے لیے تیار ہے۔ عوام کے دلوں میں جوش و خروش ہے اور ہر کوئی یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ یہ سیاسی بازیگری کس جانب لے جاتی ہے۔

جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات سے قبل سیکورٹی فورسز ہائی الرٹ پر ہیں۔ فوج نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں سیکورٹی کو بڑھانے کے لیے جموں کے علاقے میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی شروع کر دی ہے، جو 18 ستمبر سے شروع ہونے والے تقریباً ایک دہائی کے بعد تین مرحلوں میں انتخابات کو سکیورٹی کور فراہم کریں گے۔

ماضی میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور ریاست کی تقسیم کے بعد یہاں کے عوام میں مایوسی اور بیگانگی کا احساس پیدا ہوا تھا۔ ایک منتخب اور فعال ریاستی مقننہ کی غیر موجودگی نے اس بیگانگی کو اور بڑھا دیا۔ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت طلبہ، صحافیوں، وکلاء اور دیگر سول سوسائٹی کے نمائندوں کو گرفتار کیا گیا، جس سے حالات مزید پیچیدہ ہو گئے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جہاں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کو برقرار رکھا وہیں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 30 ستمبر 2024 تک کرانے کا حکم بھی دیا۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے، جو اس خطے کے عوام کے لیے ایک نئی امید  ثابت ہو سکتا ہے۔جموں و کشمیر میں ایک منتخب مقننہ کی عدم موجودگی کے باعث عوام اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کر پا رہے تھے، حالانکہ وہ اپنے جمہوری حقوق کے لیے بے تاب تھے۔ 2019 کے بعد سے بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات میں عوام کی شرکت کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ جمہوری عمل کا حصہ بننے کے لیے کتنے متحرک ہیں۔

آخری اسمبلی انتخابات، جو تقریباً ایک دہائی قبل منعقد ہوئے تھے، میں فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم واضح تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں میں تقریباً تمام سیٹیں جیت لی تھیں، جب کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)، نیشنل کانفرنس (این سی)، اور کانگریس نے وادی میں زیادہ تر سیٹیں حاصل کی تھیں۔ پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان مخلوط حکومت کا قیام ایک غیر فطری اتحاد تھا جو جلد ہی ناکام ہو گیا۔

نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے 2024 کے عام انتخابات “انڈیا بلاک” کے حصے کے طور پر لڑا ہے اور آنے والے انتخابات میں ان جماعتوں اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے درمیان اتحاد کاامکان ہے۔  یہ اتحاد اس مقصد کے لیے بھی ضروری ہے کہ جموں و کشمیر میں جمود کو توڑا جائے اور ریاست کا درجہ بحال کرتے ہوئے سیکولر گورننس کو فروغ دیا جائے۔

جموں اور جنوبی کشمیر میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ انتخابی گفتگو کو فرقہ وارانہ نہیں بلکہ شہری مسائل اور حقوق کے گرد مرکوز کیا جائے۔ ایسا انتخاب جو فرقہ وارانہ خطوط کے بجائے عوامی مسائل اور حقوق پر مبنی ہو، جموں و کشمیر میں امن کی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ انتخابات جموں و کشمیر کے عوام کے لیے جمہوریت کی بحالی کی ایک نئی امید اور یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود لےسکیں۔