جنوبی ہند کی دو ریاستوں آندھراپردیش اور تمل ناڈو کے وزرائےاعلیٰ نے اپنی ریاستوں میں گھٹتی شرح پیدائش اور بزرگوں کی تعداد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیاہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر شرح پیدائش واموات کا یہی تناسب جاری رہا تو کچھ سال بعد ریاست میں جوانوں کی تعداد کم ہوجائے گی اور بوڑھوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ کام کرنے کے لائق جوان افراد ریاست میں کم ہوجائیں گے بلکہ بزرگ افراد کی دیکھ ریکھ کی وجہ سے ریاست کےبجٹ پر زیادہ بوجھ پڑے گا۔ ایک اور خدشہ یہ بھی ہے آبادی میں کمی کی وجہ سے لوک سبھا میں ان ریاستوں کی سیٹوں میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یعنی ان ریاستوں کا مرکز کی سیاست میں وزن کم ہوجائےگا۔
آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندرا بابو نائیڈو جو مرکز ی حکومت میں بی جے پی کے اتحادی بھی ہیں،نے زیادہ بچوں والے خاندانوں کو مراعات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور لوگوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ آندھرا پردیش میں یہ قانون ہے کہ دوسے زیادہ بچوں والے مقامی الیکشن نہیں لڑسکتے۔ اب حکومت اس قانون کو بدل کر صرف دو سے زیادہ بچے والوں کو ہی الیکشن لڑنے کا اہل قرار دے گی۔ تازہ اعداد وشمار کے مطابق سال 2047 کے بعد آندھرا پردیش میں نوجوانوں سے زیادہ بوڑھے لوگ ہوجائیں گے۔نائیڈو نے زیادہ بچے پیدا کرنے کو آندھرا پردیش کے لوگوں کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے اس قوم کے لیے فائدہ منداور معاشرے کی خدمت قرار دیا۔ نائیڈو کے بیان کے چند دن بعد ہی تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے جنوبی ہندوستان کی پارلیمانی نشستوں میں ممکنہ کمی کا حوالہ دیتے ہوئے 16 بچوں کا ہدف متعین کرنے کی بات کہی۔
واضح رہے کہ عورت کی تولیدی عمر کے دوران اوسطاً بچے پیدا کرنے کی شرح کو Total Fertility Rate یا ٹی ایف آر کہتے ہیں۔ عمومی طور پرفی عورت 2.1 کی شرح کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے کوئی بھی گروہ یا ملک اپنی نسلوں میں افراد کے تناسب کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ اس سے کم کا مطلب یہ ہے کہ طویل مدت میں آبادی میں کمی واقع ہوگی الا یہ کہ دوسرے مقامات سے لوگ آکر وہاں آباد ہوجائیں۔ عالمی سطح پر یہ شرح (ٹی ایف آر) 1960 کی دہائی سے مسلسل کم ہو رہی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 1950 میں ایک خاتون کے اوسطاً پانچ بچے تھے۔ 2021 تک یہ تعداد 2.2 تک گر گئی ۔ جب کہ سال 2022 میں عالمی طور پر یہ شرح 2.3 ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شرح سال2050 تک 1.8 تک پہنچ جائے گی اور 2100 تک مزید کم ہو کر 1.6 تک پہنچ سکتی ہے۔
ہندوستان میں یہ شرح 2022 میں2.01 ریکارڈ کی گئی، جو آبادی کی سطح کو برقرار رکھنے سے قدرے کم ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح 2015۔16 میں 2.2 تھی اور تب سے مسلسل کم ہورہی ہے ۔ جنوبی ہند کی کئی ریاستوں میں اب یہ شرح 2.1 سے کافی نیچے ہے۔ صرف تین ریاستیں ۔ بہار، اتر پردیش، اور جھارکھنڈ ۔ ابھی بھی 2.1 کی حد سے اوپر ہیں۔
شرح پیدائش میں کمی کا اگر یہی رجحان رہا توہندوستان رفتہ رفتہ عمر رسیدہ لوگوں کا ملک بن جائے گا۔اندیشہ ہے کہ سال 2050 تک ہر پانچ میں سے ایک شخص کی عمر 60 سال سے زیادہ ہوگی۔ لیکن یہ تناسب جنوبی ہند میں زیادہ تشویشناک ہوگا۔ اقوام متحدہ کےادارے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) اور انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز (IIPS) کی انڈیا ایجنگ رپورٹ 2023 کے مطابق آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک، تمل ناڈو اور کیرالہ میں بوڑھے لوگوں کی آبادی نہ صرف شمالی ہند کی ریاستوں جیسے اتر پردیش ،بہار ، جھارکھنڈ، راجستھان اور مدھیہ پردیش سے زیادہ ہے بلکہ 2021 اور 2036 کے درمیان یہ شرح بہت زیادہ بڑھے گی۔
آندھرا پردیش میں بوڑھے لوگوں کی آبادی 2021 میں12.3فیصد تھی جو سال 2036 میں 19فیصد ہوجائے گی اور تلنگانہ میں 11فیصد سے بڑھ کر 17.1فیصد ہو جائے گی۔ کرناٹک میں یہ تعداد 11.5فیصد سے بڑھ کر 17.2فیصد ہو جائے گی ۔ تمل ناڈو میں یہ اضافہ 13.7فیصد سے 20.8فیصد تک ہوگا ۔ جب کہ کیرالہ میں یہ تناسب 16.5فیصد سے بڑھ کر 22.8فیصد ہو جائے گا۔
شمالی ہند میں بھی بزرگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا لیکن اس کی شرح کم ہوگی۔ مثال کے طور پر آبادی میں بوڑھوں کا تناسب اس دوران اتر پردیش میں 8.1 فیصد سے بڑھ کر 11.9 فیصد ہوجائے گا۔ بہار میں یہ اضافہ 7.7 فیصد سے بڑھ کر 11 فیصد ہوجائے گا۔ جھارکھنڈ میں 8.4فیصد سے 12.2فیصد، راجستھان میں 8.5فیصد سے 12.8فیصد اور مدھیہ پردیش میں بھی 8.5فیصد سے 12.8فیصد تک اضافہ ہونے کا امکان ہے۔یعنی جنوبی ہند میں بزرگوں کا تناسب 2036تک 6۔7فیصد بڑھے گا جب کہ شمالی ہند میں یہ اضافہ تقریبا3۔4فیصد ہوگا۔اسی رپورٹ کے مطابق سال 2036 تک جنوبی ہندوستان میں 100 بچوں کے مقابلے میں 61.7 بزرگ ہوں گے جب کہ دہلی، ہریانہ ، راجستھان، اتراکھنڈ، پنجاب، ہماچل پردیش اور جموں کشمیر میں یہ تناسب 38.9ہوگا۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں یہ تناسب مزید کم ہوکر 27.8ہوگا۔
جب کہ جنوبی ریاستوں میں 2036 تک 100 بچوں پر 61.7 بزرگ ہوں گے، جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، ہریانہ، دہلی، راجستھان میں یہ تعداد 38.9 بزرگ فی 100 بچے ہوگی۔جنوبی ہند میں بزرگوں کی تعداد میں اضافہ کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں شمالی ہند کی بہ نسبت لوگ زیادہ عمر تک زندہ رہتے ہیں۔ پورے ملک میں یہ اوسط 68.2 سال ہے جب کہ آندھرا پردیش میں 69.1 سال، کرناٹک میں 67.9 سال، تمل ناڈو میں 71.4 سال اور کیرالہ میں 71.9 سال ہے۔
جنوبی ہند کی ریاستوں میں گرتی ہوئی شرح دو اہم وجوہات کی بنا پر تشویش کا باعث بنی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ عمررسیدہ آبادی میں اضافہ۔جوان اور کام کرنے والی عمر کی آبادی میں کمی کا مطلب ہے کہ معیشت بہترنہیں رہے گی۔ بزرگوں کو پنشن اور حفظان صحت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے اہل خانہ اور ریاست پر مالی بوجھ بڑھتا ہے۔دوسرا مسئلہ سیاسی نمائندگی کا ہے۔ سال 2031 کی مردم شماری کے بعد لوک سبھا کی نشستوں کی حد بندی آبادی کے لحاظ سے کی جائے گی۔ کم آبادی اور کم شرح نمو والی ریاستوں کی لوک سبھا سیٹیں کم ہوسکتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگلی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندی میں آندھرا پردیش کی لوک سبھا سیٹوں میں 5، کرناٹک میں 2، تمل ناڈو میں 9اور تلنگانہ میں 2 لوک سیٹوں کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ جب کہ اترپردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں سیٹیں بڑھنے کا امکان ہے۔
جنوبی ہند کی ریاستوں کی یہ بھی شکایت ہے کہ وہ قومی بجٹ میں زیادہ پیسہ دیتی ہیں لیکن ان کو مرکزی حکومت کی طرف سے کم رقوم ملتی ہے جب کہ شمالی ہند میں اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں کا قومی بجٹ میں تعاون کم ہے لیکن ان کو آبادی کی وجہ سے خرچ کرنے کی رقم زیادہ ملتی ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ٹی ایف آر کی شرح بہت تیزی سے کم ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق 2.1 تک اس شرح کے پہنچنے میں فرانس کو 285 سال لگے، انگلینڈ کو 225 سال جب کہ ہندوستان میں صرف 45سالوں میں یہ شرح اتنی کم ہوگی۔ ہندوستان کے مقابلے صرف چین میں یہ شرح اور کم وقت میں نیچے گئی اور اس کی وجوہات میں سے چین کی ایک بچہ پیدا کرنے کی بالجبر پالیسی بھی رہی ہے۔
افزائش نسل ایک فطری عمل ہے ۔ لیکن مغرب کی اندھادھند نقالی نے ہندوستان کو بھی مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ اس مسئلے سے یوروپ کے کئی ممالک کے علاوہ ایشیاء میں جاپان ، چین وغیرہ بھی پریشان ہیں، جہاں بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کے لیے دوسرے ممالک سے ملازمین کو لانا پڑرہاہے۔ بعض مقامات پر تو صورت حال ایسی ہے کہ ایک ہی بیٹا ہے جو کمانے یا تعلیم کی غرض سے کسی بڑے شہر میں مقیم ہے اور گھر پر بوڑھے والدین کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ بوڑھے اور بیمار والدین اپنے کھانے پینے اور روزہ مرہ کے معمولات کے لیے ملازمین پر منحصر ہیں۔ اولڈ ایج ہوم کا کلچر بھی اس سے پھل پھول رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تناسب کے بگڑنے اور آبادی میں کمی کے اندیشے کے کئی عوامل ہیں۔ماضی میں بچیوں کو گلاگھونٹ کر ماردیا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے 21 ویں صدی میں بھی یہ شرم ناک عمل مختلف طریقوں سے جاری ہے۔ گوکہ ہندوستان میں حمل کے دوران بچے کی جنس معلوم کرنا یا بتانا جرم ہے لیکن اس کے باوجود بھی کئی ریاستوں میں لڑکے اور لڑکیوں کا تناسب صحیح نہیں ہے، یعنی لڑکے زیادہ ہیں اور لڑکیاں کم ہے۔ بہتر تعلیم اور روزگار کے مواقع کی وجہ سے بھی آبادی میں کمی کا رجحان بڑھا ہے لیکن نام نہاد جدید طرز زندگی، دولت کی حرص،شادی میں تاخیر، شادی کے بغیر رہنا (Live۔in Relationship) وغیرہ نے بھی اس مسئلہ کو کافی بڑھایا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایشائی ممالک بشمول ہندوستان نے مغرب اور اس کی تہذیب کی اندھی تقلید میں اپنی تاریخ، تہذیب وثقافت کو فرامو ش کردیا اور اب وہ اس کےکڑوے کسیلے پھل کھانے پرمجبور ہے۔